Research

Know the Truth of your Faith

Tuesday 20 June 2023

چاندنی کے بھوت


چاندنی کے بھوت

گرمیوں کی سہ پہر میں کچے صحن پر چھڑکاؤ ہوجاتا تھا اور کھری چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔ مٹی کی سوندھی خوشبو ہمارے بچپن کو اس لیے بے چین کردیتی تھی کہ اب دادی ماں سے کہانی سنیں گے۔ شام کے شروع ہوتے ہی صحن میں بنے ہوئے گرمیائی چولہے پر بوا سالن چڑھا دیتی تھیں۔ چولہے کی دھندلی آگ اندھیرے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جاتی اور ہماری بےچینی بڑھتی جاتی۔ ہم بار بار دادی ماں سے پوچھتے کہ کہانی کب سنائیں گیں؟ کبھی کبھی تو ماں جی ہمیں ڈنپٹ دیتیں کہ دادی کو زیادہ تنگ نہیں کرو۔
سچ پوچھو تو کہانی سننے تک رات کے کھانے میں بھی مزہ نہیں ہوتا تھا۔ سرشام ہی کھری چارپائیوں پر سفید چاندنیاں اور خوب موٹے تکیے لگا دیئے جاتے۔ رات ہونے تک چارپائی پرسفید چاردیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ رات کے کھانے کے بعد ہی جب بڑے موڑھوں پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے تو ہم اس وقت تک بڑوں کی گھرکیوں کے باوجود تکیوں سے ایک دوسرے کو مار مار کر ادھ موئے ہوچکے ہوتے۔ بوا بے چاری چادریں ازسرنو سیدھی کرتی۔ بہت زیادہ تنگ ہونے پر کبھی کبھی دادی کو وقت سے پہلے ہی کہانی سنانے کا مشورہ دیا جاتا۔
کہانی سے پہلے روشنیاں ضرور گل ہوجاتیں۔ کہانی سناتے ہوئے دادی کی ایک شرط ہوتی کہ ہنکارہ تو بھرو۔ یعنی کہانی کے دوران ہوں ہاں تو کرتے رہو۔ اب احساس ہوتا ہے کہ ہماری بے چینی سے دادی کو موٹیویشن ملتی تھی۔ دلیر شہزادے، رحمدل بادشاہ کی حسین اور نازک شہزادیوں کو خوفناک دیو اور ظالم جادوگروں سے آذاد کروانے کی تڑپ پیدا ہوتی یا اپنے سے زیادہ طاقتور عفریت سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔ دادی جب کہانی سناچکتیں چاروں طرف پھیلی چاندنی میں اپنا ہی گھر کسی دیو کا سیاہ قلعہ بن جاتا۔ ہم اپنی چارپائی کو ہی اڑن قالین بنا لیتے اور کچھ ہی دیر میں یہ قالین جھاڑو والی جادوگرنی کا پیچھا کررہا ہوتا۔ اندھیری راتوں میں آنگن میں کھڑے شیشم اور نیم کے بڑئے بڑئے درخت خوفناک دیو بن جاتے۔ کئی مرتبہ بکریوں کے گھنگرو پریوں کی پائیل کی آوازوں میں ڈھل جاتے اور راجہ اندر خود پریوں سمیت ہمارے آنگن میں آاترتے۔ کئی مرتبہ ظالم جادوگر شیشیم کے درختوں سے اتر کر ہماری چارپائی پع آدھمکتا تو خوف کے مارے گھگھی بندھ جاتی اور پیشاب کرنے بھی اماں کا ہاتھ تھام کر ہی جاتے اور اس دوران بھی ادھر ادھر چڑیلوں کے حملے سے ہوشیار رہتے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ پریاں، دیو، جادوگر، چڑیلیں کہانیوں میں بستے ہیں۔ یہ کہانیوں میں ہی رہتے ہیں اور کہانیوں سے نکل آئیں تو پریاں اور چڑیلیں دونوں ہی مرجاتے ہیں۔ کہانیاں تخیل سے جنم لیتی ہیں اور تصور کو بناتی ہیں۔ یہی تصور بعد میں حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ نیل آرم آسڑانگ نے چاند پر پہنچ کر پہلا جملہ یہی کہا تھا،
"ہیلو دادی ماں میں تمہارا چرغہ ٹھیک کرنے آیا ہوں"
اپنے بچوں کے تخیل کو ہرگز مت ماریے۔ انہیں کہانیاں سنائیے۔ ان کا بچپن حقیقی دنیا سے ماورا آباد ہونا چاہیے۔ یہی تخیل انہیں اپنا تصور بنانے میں مددگار ہوگا۔ ممکن ہے کوئی کارل سیگال پیدا ہو۔ ممکن ہے ظالم دیو کو سر کرنے کی دھن میں وہ سماج کی غربت دور کرنے میں دلیر شہزادے کا روپ بھرلے۔ ہوسکتا ہے کہ حسین شہزادی کی آس میں برادری کے دیو کو خاتمہ کردے۔ ممکن ہے کوئی ہینسل ظالم ریاست کی قید میں اپنے بھائی گریٹل کو آزاد کروا لے۔ ممکن ہے ممکن ہے۔
بس کہانیوں کو زندہ رکھیں۔

اقوام عالم ور گلوبل ولیج کا تصور



اقوام عالم ور گلوبل ولیج کا تصور

میں کہیں جارہا تھا کہ میں نے نہر کے کنارے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا ہے وہ شخص پانی میں ابھرتا تھا کھلی کھلی آنکھوں سے لوگوں کو تکتا تھا اور پھر ڈوب جاتا تھا۔لوگ شور کر رہے تھےہاتھ دو ہاتھ دو ہم تمہیں کھینچ لیں گے مگر وہ تھا کہ کھلی کھلی آنکھوں سے دیکھتا تھا اور ڈوب جاتا تھا ۔اسی دوران بحیڑ کو چیرتے ہوئے ملا نصیرالدین نمودار ہوئے '' آہ!میں اسے جانتا ہوں ''وہ بولے۔یہ فلاں جگہ کا مالدار شخص ہےیہ کہہ کہ وہ نہر کہ اندر جھکے اور کھینچ کر ڈوبتے ہوئےشخص سے گویا ہوئے۔''یہ لو پکڑو اور کھینچ لو''اس شخص نے فوراً ملا کا ہاتھ پکڑا اور کھےنچا تو کنارے پر آگیا۔لوگوں نے ملا کی تعریف کی۔میں نے ملا سے پوچھا ''حضرت یہ کیا بول رہا تھا''ملا بولے ''میں اس کو جانتا ہوں۔یہ بہت مالدار شخص ہے۔کبھی کسی کو کچھ نہیں دیتا۔لوگ اس سے ہاتھ مانگ رہے تھے۔میں نے اس کو ہاتھ دے دیا
مالدار اقوام بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔
مسلہ کشمیر میں یہی بہت اہمیت کی بات ہے۔ کون مالدار اقوام کو زیادہ مال دے سکتا ہے۔ مال یا ایسا فائدہ جو مال دے سکے، ایک ہی بات ہے، مال ہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کامیاب اور زیرک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ ان کا ملک مغربی دنیا کی ۷۰ فیصد سے زیادہ معیشت سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سمجھتے ہیں، وہی سب دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور درست سمجھتے ہیں۔ انہیں ثالثی کا خیال آیا ہے، سب کو آیا ہے۔ اس ثالثی میں بھارت انہیں ایک بہت بڑی منڈی بے بھاؤ دینے کو تیار ہے۔ پاکستان کیا دے سکتا ہے؟ بےحد غور کرنے کی بات ہے۔ انہیں پاکستان کیا دیتا نظر آیا ہے؟ پاکستان اپنی منڈی چین کو دے چکا ہے اور کیا دے سکتا ہے؟ کیا ڈھائی ارب کی آبادی کی منڈی کا ناراض کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسی شکست جو پاکستان کا پلہ بھارت پر بھاری کردے، ممکن ہوگی؟ کیا جنگ میں کشمیر لینے کا مطلب بھارت کی ۲۴ ڈویزن فوج کو شکست دینے کے مترادف نہیں ہوگا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ خام خیالی جتنی بھی کی جائے حقیقت نہیں بن سکتی۔
مجھے نظر آتا ہے کہ ثالثی میں مکمل کشمیر، کنٹرول لائن کے دونوں اطراف، بشمول لداخ ۲۰ سال کے لیے اقوام متحدہ کی حفاظت میں دے دیا جائے تاکہ "استصواب رائے" کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ اقوام متحدہ کی مشترکہ فوج مغربی ممالک پر مشتمل ہو۔ یہ تعیناتی چین کو آسانی سے مانیٹر کرسکے گی۔ یہی "آسانی" پاکستان، صدر ٹرمپ کو دے سکتا ہے۔
مالدار ''قوم'' قوم وہ لفظ ہے جسے شاید آج کسی Definition کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔جب بھی گروہ انسانی کہیں پر بھی یکجا ہوا ہے اس نے کسی بنیاد پر خود دوسرے موجود گروہوں سے خود کو الگ تصور کیا ہے۔مذہب بھی اس بات کا شاہد ہے۔آدم کے دو بیٹوں کا قصہ تو اب بچوں کو بھی ازبر ہے۔ظاہر ہے کہ جب افراد کا ایک گروہ کسی خاص بنیاد پر اکھٹا ہوجائے تو وہ دوسرے گروہوں سے خود کو شناخت کرنے کا بھی طلب گار ہوگا۔تاریخ مرقوم ہونے سے ہت پہلے سے جب حصہ کیا بچوں کو پڑحا جانا ہے تب بھی قوم کا تصور موجد رہتا تھا۔تاہم اس وقت شاید اس لفظ کو Exclusive کرنے کی اس قدر شدید ضرورت نہیں رہی ہو جس قدر آج ہوچکی ہے تاریخ میں ہمیں قوم کا تصور اپنے اصطلاحی معنوں میں سب سے پہلے یونان تہذیب میں ملتا ہے۔وہ لوگ ایک علاقہ میں ،ایک لباس میں ، ایک رنگ ،ایک تمدّن اور ایک زبان بولنے والے مختصر افراد تھے۔ اپنے علاقے کے علاوہ دیگر علاقے ان کی نظر میں قابل توجہ نہیں تھے۔باہر کے علاقے میں صرف علاقوں کے حصول کے لئے مہم کشی کی جاتی تھی۔پھر ضرورت کے تحت افراد زیادہ ہوتے گئے اور افراد کے لئے وسائل کی کمی ہوتی گئی لہذا ان لوگوں کی طرف نظر اٹھی جو ان وسائل کو استعمال کر رہے تھے جن کی ضرورت یونانی قوم کو تھی۔لہذا وسائل کے حصول کے لئے یونانی قوم ور غیر قوم ووجود پذیر ہوئیں۔یونانی قوم اس سے قبل بھی تھی لیکن امتیاز صرف''شہری'' اور ''غلام'' میں تھا غلام کو قوم کا حصہ خیال نہیں کیا جاتاتھا۔اسوقت شاید قوم اور شہری ہم معنی خیال کئے جاتے ہیں۔لفظ ''قوم'' Nationبہت بعد کی پیداوار ہپے۔قوم میں ''ضرورت وسائل'' کے لئے مفادات جنم لیتے رہے اور افراد میں اضافہ ہوتا رہا۔
میں اس گفتگو میں ابن فاران کی بیان کردہ اصطلاح ''عمیت''کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ان کے خیال میں قوم کی تشکیل میں ''عمیت'' ہی واحد عنصر ہے۔عمیت میں پوشیدہ وہ عنصر بھی شامل ہیں جو ایک قوم حسد یا رشک کی بنیاد پر دوسری قوم سے رکھتی ہے۔عمیت کے اس عامل سے مسلم حکمرانوں اور ملائیت نے مسلم حمیت کے نام سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔اور مشترکہ مفادات کی یہ کونسل، حکومت، ملائیت اور دولت آج بھی فاءدہ اٹھا رہی ہے۔تاریخ کے ادوار کا پیہم مسلم حکمرانوں کے عروج کو کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا ہے۔مگر مفادات کی آئینی طوق قوموں کی گردنوں سے کب اترسکے گاکوئی نہیں جانتا۔ اقوام کی شناخت کا مرحلہ ایشیاء کے بعد یورپ میں بھی دوبارہ کھڑا ہوگیا۔کوئی سلطنت کے زوال کے بعد عطاردے اپنے تمام تر علمی ذخیرے کے ساتھ قسطنطنیہ سے بھاگ کر وہاں جاکر براجمان ہوگئے۔علم میں ایک بڑی مصیبت ہے روشنی کی طرح وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔یہی کچھ یور پ میں ہوا۔عین 1415ء کی بات ہے ادبی علم کہ وہ علم کہ جو ایشیاء کو منور کرچکا تھا۔یورپ میں سرائیت کرگیا۔یورپ میں احےائے علوم اور احےائے سخن سے تحریکوں نے ایک نئی روح پھونک دی۔اقوام کی شناخت کا مرحلہ شروع ہوا قومی مفادات کی کونسل نے بھی ایک کام شروع کردیا۔یورپ میں اقتدارکی ہوس،دولت کی تقسیم، مذاہب کی تنظیم نو اور ادب نے معاشرے میں ایک Clair Reactor شروع کردیا۔وہ علوم جو ادبی علماء نے خود تک محدود کئے ہوئے تھے۔یورپی زبانوں میں مدون ہوئے اور عوام الناس تک پھیل گئے۔علاقوں کی جغرافیائی حیثیت اور انفرادی تقاضوں کے درمیان سرحدوں کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ سلطنتوں، قوموں، زبانوں اور مذاہب کی جغرافیائی، عقلی اور جذباتی تقسیم شروع ہوگئی۔یہ الزام دیا جاسکتا ہے کہ علوم کی آمد نے معاشرتی کھنچائو پیدا کردیا مگر یاد رکھئیے کہ علوم جہاں معاشرتی تقاضوں کو پورا کرتے ہیںوہاں کم علمی جذباتیت میں پیدا ہوتا ہے۔علم کو جب تک مقید رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے معاشرتی بہائو یکساں سست رفتار ہی کے ساتھ ایک سفر میں جاری رکھتا ہے۔
اقوام کی سیاسی تاریخ کے جدید دور دوسری عالمگیر جنگ کے بعد شروع ہوتے ہیں۔جہاں قوموں کا عروج وزوال ، تاریخی پس منظر کی تحقیق، نظریات اور طاقت و مفادات کے حصول کے ذرائع سبھی تبدیل ہوگئے۔ گو معاشیات انسانی تاریخ کے اولین قدم سے لیکر آج تک غیر اہم کبھی بھی نہیں رہی۔ تاہم دوسری عالمگیر جنگ کے بعد معاشیات نے وہ اہم حیثیت حاصل کرلی۔جس نے معک آتی بہائو کے دریا کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ چند دہاءِوں قبل اورک برائیس نے قوم کے لفظ کو نیا آہنگ دیا یا یوں کہیئے کہ جہاں دوسری عالمگیر جنگ نے نسل انسانی کو قتل کیا وہاں جغرافیائی ،مذہبی، لسانی بنیادوں پر قائم اقوام ان سرحدوں کو پائمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب بھی آئیں۔ان میں باہم اختلاف پیدا ہوا۔یہ بات تو اب صد فیصد ثابت ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ صرف اور صرف معاشیات کے دبائو پر کری گئی۔تاہم مذہب کو اب بھی اس بات پر یقین ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ معاشیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نسلی بنیاد پر لڑی گئی۔بڑی سادہ سی بات ہے اگر دوسری عالمگیر جنگ نسلی بنیاد پر لڑی گئی ہوتی تو UHO وجود میں نہ آتی۔تاہم یہ بات بہت حیرت کی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں دنیا میں وہ اہم اور نمایاں عمل کاری وجود پذیر ہوئی۔ایک UHO کا قیام اور دوسری نسلی بنیاد پر اسرائیل کا قیام۔کہاں UHO ، نسلی بنیاد پر لڑی جانیوالی جنگ کے بعد نسلی رد عمل کو روکنے کے لئے وجود میں آئی ہو اور کہاں خود UHO کے بڑوں کے جھندے تلے نسلی بنیاد پر اسرائیل کا قیام۔معدوم انسانی تاریخ چند ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے۔اس کے سرسری جائزہ سے اس بات کا علم ہوجاتا ہے۔کہ گروہ اپنی اعزازئیت کو کھودینا نہیں چاہتے۔قوموں کی تشکیل بے خودی میں پروان چڑھے تمدن سے ہوتی ہے۔اس میں شعوری کوشش کا معمولی حصہ ہوتا ہے جو مسلسل متغیر اور مستعدی رہتا ہے۔ادرک برائیس کی اصطلاحی تفسیر سے قطع نظر قوم صرف علاقہ، لسان، رنگ، نسل وغیرہ کی بنیاد پر نہیں بنتی،مشترکہ مفادات کی بھی قوم ہوتی ہے۔فرق صرف اتا ہے کہ عام روایتی اقوام جو علاقے، زبان، رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہیں۔عیاں میں اور نظر آتی ہیں۔مشترکہ مفادات کی کونسل بظاہر نظر نہیں آتی۔مشترکہ مفادات کی کونسل ہر شخص قوم کی خاص علاقہ، زبان یا رنگ سے نہیں بنتی۔اس کا اقتدار اعلیٰ تمام اقوام سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس قوم کے افراد میں ایک خاموش مگر قاتل ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔انسانی تاریخ کے اس منظر میں چند نہایت اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ جن کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔مگر آج کی تمدن دنیا کو کیا واقعی شعوری کوشش کے ذریعے ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کردینا چاہئیے؟کیا ایک قوم خود کو برتر اور بہتر گردانتے ہوئے دیگر تمام اقوام کو ایک چارٹر کے ذریعے ایک گلوبل ویلیج میں رہنے پر بزور مجبور کرنے میں حق بجانب ہوسکتی ہیں؟ ایسے گلوبل ویلیج کی شعوری کوششیں معاشی بنیاد پر ہیں یا نسلی بنیاد پر ؟ یہی وہ سوال ہیں جن کا جواب ابھی اقوام عالم سے آنا باقی ہے۔
اس زمانے نے بہت جید اور عظیم علماء پیدا کئے۔عقلی اور فکری رجحانات جو بے مہار تھے ان کو نظم وضبط میں کردیا گیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے فیصلہ کن اور مطلق الفان فیصلوں کی راہ میں واضح اور مدلل توجیہات مرتب ہوئیں۔زمانوں اور تجربات نے معابر، روسو، ادک جیسے علمائے سیاست نے ''اقتدار علمی''کا لفظ سیکھا ور سکھایا۔ اقتدار علمی کے لفط کی وعیان کے ساتھ ہی حکمرانوں نے طاقت، دولت اور ملائیت نے خدا کے نام اور اختیار سے پوری کی پوری اقوام کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔عیسائیت اور اسلام دونوں جغرافیائی حصوں میں تقسیم ہوئےاور ان سرحدوں میں موجود اقوام کے درمیان مفادات کے بچائو اور حصول کی کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ اس ضمن میں دنیا مفادات کا تحظ کرتے ہوئے عالمگیر جنگوں سے آلودہ ہوئی۔غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن، وہی سوچہ ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن۔۔۔۔۔۔
کیا شعوری کوشش سی صرف ایک قوم کے معاشی اقدار کو تحفظ دیا جائے اور تمام دیگر معاشرتی اقدار کو تباہ ہونے دیا جائے؟ کیا دیگر قوموں کے معاشرتی اقدار کو بھی تحفظ دینے کا حق حاصل ہونا چاہئیے؟

کتے کی موت


کتے کی موت


یہ جو کسی انڈین منسٹر نے کشمیریوں کی اموات کو "کتے کی موت" قرار دیا ہے، انہوں نے خود اپنے مذہب اور مہابھارت کے سپوتوں کی توہیں کی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کتا کیا ہے؟ مہابھارت کی ساتویں ادھیا میں جب پانڈو بھائی اپنی ارضی ذمہ داریاں پوری کرکے جب سمیرو پہاڑ پر چڑھ رہے تھے تو سب سے آگے یدھشٹر چل رہا تھا۔ اس کے پیچھے بھیم، ارجن، نکل، سہدیو اور دروپدی چل رہے تھے۔ راستہ یخ بستہ اور نہایت دشوارگزار تھا۔ اچانک پیر پھسلا اور دروپدی ہزاروں فٹ گہرائی میں گر گئی۔ یدھشڑ بڑبڑایا کہ دروپدی پانچوں بھائیوں کی بیوی تھی مگر وہ ارجن سے زیادہ پیار کرتی تھی اس لیے ایسے گری ہے۔ کچھ دنوں بعد سہدیو گرا ، یدھشڑ بڑبڑایا کہ سہدیو کو اپنے عقلمند ہونے کا بہت گھمنڈ تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد نکل گرا، یدھشڑ بڑبڑایا کہ نکل کو اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز تھا، پھر کچھ دنوں بعد ارجن گرا، یدھشڑ بڑبڑایا کہ وہ بہت شیخی باز تھا اور وچن دیا تھا کہ سارے دشمنوں کو ایک ہی دن میں ختم کرے گا لیکن نہیں کرسکا۔ پھر کچھ دنوں بعد بھیم گرا، یدھشڑ بڑبڑایا کہ تم اس لیے گرے ہو کہ تمہیں اپنے طاقت پر بہت غرور تھا اور تم بہت پیٹو تھے اور تمہیں اپنے دشمنوں سے خوب نفرت تھی۔ ابھی یدھشڑ کچھ ہی دور چلا تھا کہ اندر دیوتا اپنے رتھ میں نمودار ہوئے اور اسے بتایا کہ اسکے سارے بھائی اور دروپدی سؤرگ (جنت) میں پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ یدھشڑ کو وہ اپنے ساتھ لیجانے آئے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حالانکہ یدھشڑ نے کتا پالا ہے چنانچہ وہ جنت کا حقدار نہیں بنتا لیکن اگر وہ اس کتے کے بغیر رتھ میں سوار ہوجائے تو اسے جنت لے جایا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ کوئی کتا جنت میں نہیں جاسکتا۔ مگر یدھشڑ ، جو رتھ میں سوار ہوچکا تھا چھلانگ لگا کر رتھ سے باہر آگیا۔ اس نے اندر دیوتا کو بتایا کہ کس طرح اس کتے نے سفر کے دوران پانڈو بھائیوں سے وفا داری نبھائی ہے، اپنی جان کو پانڈو بھائیوں کے لیے زخمی ہوا ہے، وحشی درندوں سے لڑا ہے، اس لیے وہ جنت کی بجائے اس کتے کے ساتھ رہنا پسند کریگا۔ جونہی یدھشڑ نے یہ کہا وہ کتا غائب ہوگیا اور اس کی جگہ موت اور انصاف کا "یم" دیوتا آموجود ہوا۔ دیوتاؤں نے یدھشڑ کو بتایا کہ وہ اس امتحان میں بھی کامیاب ہوا ہے اور اسی وقت یدھشڑ نے خود کو جنت میں کھڑا پایا۔
یہ کہانی میں نے مہابھارت کے سب سے مستند نسخے، "پونا کی مہابھارت" سے لیا ہے۔ پونا کی مہابھارت، "پربھارکر تحقیقی مرکز، پونا" سے نقل کیا ہے۔ ۲۷ جلدوں میں مہابھارت کا یہ نسخہ ۳۹ سال کی تحقیق کے بعد تیار ہوا۔

وادی، رات اور ہم

میں اس سنسان وادی میں اکیلا ہی تھا۔ مجھے ملنے کے لیے علاقے کا فارسٹ آفیسر اور زرعی افسر اکھٹے آئے تھے۔ میرا مقامی دوست انہیں مجھ سے ملانے والا تھا جنیں سبھوں کو آنے میں دیر ہوگئی تھی اور اندھیرا پھیل رہا تھا آج رات کی چاندنی بہت روشن تھی۔ آسمان بہت واضح تھا اور روشن ستارے چاندنی کی وجہ سے مدہم پڑ چکے تھے۔ طویل وقت سے میں نے ایسی صورت حال کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ برسوں پر محیط اس قسم کا منظر، آج رات اچانک میرے سامنے نمودار ہوا تھا۔
مجھے آسمان تکتے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ سات ستاری جھرمٹ کو چمکتا دیکھنے کے لیے براہِ کرم کسی کھلی وادی میں جائیں۔ یہاں بہت آبادی ہے۔ لیکن دنیا کی خاک کبھی ختم نہیں ہوتی آبادی بڑھانے کی مشق اس کا سیدھا ثبوت ہے۔ انسانوں کی دنیا میں، جب بھی میرا پیچھے ہٹنے کا دل ہوتا ہے، میں خود کو کیچڑ میں دھنسا ہوا سمجھتا ہوں اور تمام مخلوقات میں قدرت کے بارے میں سوچنے کے علاوہ مدد نہیں کرسکتا۔  کیچڑ کے بغیر کنول نہیں اگتا۔ نیچر کو کیسے بغیر جذباتی ماحول کے حاصل کر سکتے ہیں؟ صرف اس طرح تمام دکھ اور خوشی امرت بن جاتی ہے۔
جب لوگ ماہر بننا چاہتے ہیں۔  ہر روز کی نئی سوچ کے ذریعے میں اندر کی پیچیدہ دنیا کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتا ہوں۔  اگر آپ پرسکون ہو جائیں تو آپ اپنے ایک نئے ناقابل یقین چہرے کا مشاہدہ کریں گے۔ خاص طور پر ایسی ویران وادی میں یہ بہت مختلف محسوس ہوتا ہے۔  ذہن کی دنیا ایک چھوٹی سی کائنات ہے لیکن یہ بہت پیچیدہ بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زندگی بھر اس کا علم نہ ہو سکے، یا یہ ایک لمحے میں روشن اور مکمل ہو جائے۔
 کائنات ایک ہی ہے۔  یہ سیارے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟  کائنات میں کون سی دنیا چھپی ہے؟  ہر ستارے میں کیا ہے؟ زمین نے کیا کردار ادا کیا؟  زمین ہوا میں معلق ہے؟ زمین کو کون گھماتا ہے؟  زمین کی گردش کس کے اختیار میں ہے؟
 اس وقت میرا ڈائری لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں، میں روشن ستارے دیکھ رہا ہوں، اپنی سوچ کو مکمل طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ کائنات کی حقیقت سے متوجہ، درحقیقت وسیع کائنات میں، زمین صرف ایک چھوٹی سی نیلی  گیند ہی تو ہے۔ لیکن یہ نیلی گیند بے شمار مخلوقات پر مشتمل ہے۔  جذباتی انسانوں کی قسمت، اتار چڑھاؤ، خوشیاں اور غم، محبتیں اور نفرتیں، سب اسی نیلے نقطے پر پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ میرا مقدر نعمتوں کی سرزمین ہے، جو میں اب کر رہا ہوں، کیا یہ قدم قدم پر سنہری کنول ہے؟ جو بے کیچڑ کے پیدا ہوا ہے؟
 غور کرو، غور کرو، ہر چیز کا سراغ لگاؤ، کیا تمہارا دماغ خالی ہے؟ پاک سرزمین پر واپس آ جاؤ۔ ہرچہ باد آباد۔

یہ مرض لاعلاج نہیں

پتہ چلا کہ یہ وہ بیماری نہیں ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا، یہ جذبات ہے۔

فقرہ "غصے سے پیٹ میں درد" اب کوئی مبالغہ آمیز طنز نہیں ہے، بلکہ جسم کے جذبات کا حقیقی ردعمل

درحقیقت، پیٹ کے مسائل جسم پر جذبات کے اثرات میں آئس برگ کا صرف ایک سرہ ہیں۔ جب آپ کو پہچانا نہیں جاتا ہے، آپ کو اپنے چھپے ہوئے پہلو کے دریافت ہونے سے ڈر لگتا ہے، آپ ناواقف لوگوں کو ہیلو کہنے سے ڈرتے ہیں، آپ براہ راست دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے، اور آپ خود کو کھولنے کی ہمت نہیں کرتے... گھبراہٹ، افسردہ ، خوفناک، خود سے انکار کرنے والے جذبات کو وہاں ذخیرہ کیا گیا ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈپریشن، سماجی گھبراہٹ اور یہاں تک کہ آٹزم کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ لوگ کبھی نہیں تھکتےصرف وہ لوگ جو اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔جب ہمارا ذہن سمندر کی طرح وسیع ہوتا ہے تو ہمارے جذبات سمندر کے ایک چھوٹے سے بلبلے کی طرح ہوتے ہیں، جو اٹھتے ہی مر جائے گا، طوفان بننے کے لیے کافی نہیں۔ دماغ کی عظمت اپنے اور بیرونی دنیا کے درمیان مفاہمت اور انضمام سے آتی ہے۔ جسم اور دماغ متحد ہیں، دل کھلا ہے، اور جسم جڑے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے لوگ تھکن سے نہیں مر سکتے لیکن صرف سانس کی کمی سے۔ جسمانی صحت صرف ورزش سے نہیں آتی۔ جب آپ اپنے دل کو کھولیں گے اور مثبت توانائی کو اندر آنے دیں گے، آپ صحت مند رہیں گے۔ جب ہم اپنے عمل میں کافی مضبوط نہیں ہوتے ہیں، تو ہم اکثر جذبات اور خیالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے عمل اور خیالات کا ایک سا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت، آپ دیکھیں گے کہ "جذبات" سے نمٹنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اور آپ کو ملنے اور ساتھ رہنے کے مراحل سے گزرنا چاہیے۔

پہلا مرحلہ: "آگاہی" 

جب "انا" نسبتاً سنجیدہ ہوتی ہے، تو دوسروں کی طرف سے ایک لفظ یا ایک نظر ہمیں مزاحمت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور غصے میں بھی آ جاتی ہے۔ تناؤ بھرا جسم، سانس بند سینے یا گرم کان اور سر پر وزن؛  یہ سب سرگرمی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ بیرونی دنیا کے ساتھ ہمارا تصادم بڑھا دیتے ہیں۔

آرام کرنے کی کوشش کریں اور اس حالت سے آگاہ رہیں۔

یہ ٹھیک ہے، آپ کو پہلے اس جذبے کے وجود سے آگاہ ہونا چاہیے، جس میں آپ کے جسم کے کسی بھی حصے میں ہوا کے بہاؤ کا واضح اشارہ شامل ہے، اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ اس وقت جذبات سے متاثر ہوئے ہیں۔

راز: جتنی تیزی سے ہم اپنے جذبات سے واقف ہوں گے، اتنی ہی تیزی سے ہم ان سے باہر نکل سکتے ہیں۔ آئندہ فیصلہ سازی اور رویے جذبات سے کم پریشان ہوں گے۔ 

یہ ایلما کی ایک تکنیک ہے کہ فریبی خیالات سے مت ڈرو، صرف آگاہی میں دیر ہونے سے ڈرو۔

جب آپ اس ابتدائی مرحلے پر ہوتے ہیں تو آپ 'جذباتی بیداری' کی تربیت کیسے کرتے ہیں؟ چاہے وہ خاموشی سے بیٹھنا ہو، مراقبہ کرنا ہو، منتروں کا جاپ کرنا ہو، آیات کی تلاوت کرنی ہو، سانس لینے کا مشاہدہ کرنا ہو، بیداری پیدا کرنا ہو، یا کانوں یا سانس پر توجہ مرکوز کرنا ہو، مقصد یہ ہے کہ موجودہ لمحے پر توجہ مرکوز کی جائے، اس لمحے کی ہر حرکت کو واضح طور پر جانا جائے چنانچہ یہ کیسے ہی کریں بس طویل عرصے تک اپنی اس بیداری کی تربیت کی صلاحیت کو جتنا لطیف اور تیز کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ 

دوسرا مرحلہ: ساتھ رہنا؛ یا "جذباتی نظم" حاصل کرنا۔

اس حالت کے نوٹس لینے کے بعد اس کا خیال رکھیں۔

جب "جذبات" آپ کو للکارنے کے لیے تیار ہو، اور آپ تھوڑی سی کوشش کے ساتھ "جذباتی" ردعمل سے باہر نکل جائیں، تو اسے مزاحمت یا دبانے کی کوشش نہ کریں، اسے آنے اور جانے دیں۔ اگر آپ اس چال کو قبول نہیں کریں گے تو یہ آپ کے خیالات میں الجھ جائے گی، اور آپ بار بار اپنے آپ کو یا دوسروں کا فیصلہ کرنے لگیں گے، یا خود کو کمتر محسوس کریں گے یا گریز کریں گے، یا نفرت پیدا کریں گے، پھر آپ اس سے شکست کھا جائیں گے، اور آپ فضول باتیں کریں گے۔جب آپ بہت پرسکون رہتے ہیں اور اسے خاموشی سے دیکھتے ہیں،

 اصول ہے کہ "استقبال نہ کریں، مسترد نہ کریں، پیروی نہ کریں" 

یوں یہ حالت قدرتی طور پر غائب ہو جائے گی، یہ جیتنے کی کوئی چال نہیں ہے بلکہ قدرتی عمل ہے۔ اس وقت آپ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں اس پر غور کریں، اور اس وقت آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ صرف اس "آگاہی" کو برقرار رکھنے کے لیے بیداری زندگی کے ہر لمحے میں کی جا سکتی ہے، نہ کہ صرف مراقبہ، تلاوت اور جاپ میں۔ آسمان پر تیرتے بادل آسمان کے سکون کو متاثر کیے بغیر آزادانہ آتے اور جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یہ جان کر کہ جذبات جسم اور دماغ میں آتے اور جاتے ہیں بغیر رکے، کسی کو بالکل متاثر کیے بغیر، یہ بہترین طریقہ ہے ۔ اچھی صحت میں رہنے کے لئے۔

دنیا کی کامیابی

استاد نے بتایا کہ فطرت کی کوئی ظاہری شکل نہیں ہوتی، تمامتر فطرت میں، انسان خود سب سے زیادہ ظاہر ہیں، اور تمامتر فطرت میں خود انسان سب سے بڑی فطرت ہے۔ لیکن کسی چیز میں فکر نہ ہو تو اس کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ جب کوئی شخص اس فطرتی حالت تک پہنچتا ہے جس میں کوئی دماغ اور کوئی شکل نہ ہو تب اس کے پاس فطرت کی کامل روشن خیالی کا دل ہوتا ہے، اور انسانی دل اس قدر آسمانی ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے اسے متاثر کر سکتا ہے، اور یوں وہ دنیا کا مالک ہے۔انسان دنیا کا مالک بننے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے تمام چیزوں کی پیدائش اور موت کے بنیادی قانون یعنی دھرمتا پر عبور حاصل کر لیا ہے اور کائنات کی تمام چیزیں اس کی پابندی کرتی ہیں۔ جب ہم اور کائنات کے ماخذ کے ساتھ ایک ہو جائیں گے، تو ہمیں حقیقی فطرت مل جائے گی، جو نہ پیدا ہو سکتی ہے، نہ فنا، نہ گندی، نہ صاف، نہ بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ سکتی ہے۔

Tuesday 20 August 2019

لال بھجکھڑ


لال بھجکھڑ

کہتے ہیں پنڈت لال بھجکھڑ کہیں سے گذررہے تھے کہ ایک آدمی کنویں میں گر گیا۔ لوگوں میں سے ایک دانا نے کنویں میں رسی پھینکی اور آدمی کو کہا کہ اسے کمر سے باندھ لو۔ اس آدمی نے رسی کمر سے باندھ لی۔ دانا نے لوگوں سے کہا کہ اب اس کھینچ لو۔ آدمی کنویں سے باہر آگیا۔
لال بھجکھڑ نے سیکھا کہ پھنسے ہوئے آدمی کو کمر سے رسی باندھ کر کھینچنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
کچھ دن گذرے تھے کہ راہ چلتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی درخت پر پھنس گیا ہے اور اس سے اترا نہیں جارہا۔ لال بھجکھڑ کو دانائی آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لال بھجکھڑ ہمارے سماج میں جابجا پائے جاتے ہیں۔ علاج معالجہ، مذہب، سیاست، عمارت سازی، عدلیہ، دفاع، خارجہ تعلاقات غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لال بھجکھڑ اور ان کے مشورے حاضر ہیں۔ یوٹیوب چینلز پر، فیس بک والز پر، ٹیوٹر الرٹ پر اور حد یہ کہ لنکڈان فیس پر بھی ایسے مشورے حاضر ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ دکھ اس بات پر نہیں ہے کہ ہمارے یہاں خونی بواسیر کا علاج تعویز گنڈوں سے کیا جاتا ہے، بلکہ اس بات پر ہے کہ لوگو صحتمند بھی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
ںہیں ہے تو اس شعبے کا مشورہ نہیں ہے جس میں خود کام کرتے ہیں۔ اپنے ہی کام سے نفرت ہمارا ہی خاصہ ہے!
جہالت کی سب سے افسوسناک حالت وہ ہوتی ہے جہاں خود کسی کو جہل سے نکلنے کی جستجو نہ ہو۔ جس بارے میں مکمل آگہی نہ ہو اس پر رائےزنی مناسب نہیں ہوتی۔ ذاتی تجربہ آفاقی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ سب پر، ہر حالت میں، ہروقت لاگو نہیں ہوسکتا۔ ذاتی تجربے سے آفاقی نتائج اخذ کرنا اور سب پر لاگو کرنا اخلاقی جرم ہے۔