#pakistanlegitimacycrisis
پاکستان لیجیٹیمیسی کرائسیس ۱۹۴۷ سے ہی مسلہ رہا ہے۔ انڈین اینڈیپینڈنس ایکٹ ۱۹۴۷ کے تحت قائداعظم کو ملکہ برطانیہ کی نمائندگی کے لیے ایک ایسا گورنر جنرل چاہیے تھا جو ملکہ کی خوشنودی کی بجائے پاکستان کا سوچے۔ اس لیے انہوں نے خود کو اس عہدے کے لیے سب سے مناسب جانا لیکن اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ گورنر جنرل کی آئینی حیثیت میں انہیں حکومت کے روزانہ کاموں میں دخل دینا پڑا۔ قائد اعظم کی طاقتور شخصیت آئینی ہونے کے باوجود وزیراعظم کو روزانہ ہدایات دیتے رہے۔ ان کے بعد بھی یہ سلسلہ ۱۹۵۶ تک جاری رہا۔ بالاآخر جنرل ایوب نے الزام لگا کر اسکندر مرزا کی غیرآئینی حکومت باضابطہ طور پر ختم کردی گئی۔
اس کے بعد پارلیمانی نظام کو نقصاندہ قرار دے کر صدارتی نظام نافذ کردیا گیا۔ صدر نے بھی وہی کیا جو وزیراعظم کرتے رہے۔۱۹۷۳ میں صدارتی نظام کو نقصاندہ قرار دے کر دوبارہ پارلیمانی نظام نافذ کردیا گیا۔ معراج خالد اور فضل الہی چوہدری جیسے ملازم صدر وجود میں آئے۔ جنرل ضیا کی آمد کے ساتھ ہی آئین کی دفعہ ۲/۵۸ بی کے ذریعے عملاً صدارتی نظام دوبارہ نافذ ہوگیا۔ اختیارات کے توازن کے نام پر صدر کو پارلیمان توڑنے کا اختیار برقرار رکھنے کا نتیجہ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے دخل انداز صدر نمودار ہوئے۔
اسی طرح صدر آصف زرداری جیسے سیاسی قدآور شخصیت نے آئینی صدر کی طاقت اتنی زیادہ بڑھائی کہ وزیراعظم عملی طور پر ایک ملازم کی حِیثیت اختیار کرگیا۔ صدر زرداری نے دوبارہ حکومت کی امید پر ۲/۵۸ بی کو میثاق جمہوریت کے تحت ختم کردیا۔ اس طرح نواز شریف ایک انتہائی طاقتور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے۔ بالاآخر نواز شریف جیسے طاقتور وزیراعظم نے دوبارہ ملازم صدر کو رواج دیا۔
اس ساری کہانی میں کئی فوجی چیف آف سٹاف کا سیاست میں کردار خاصا نمایاں رہا۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج کو براہ راست ریاستی سیاست میں مداخلت کرنا پڑی۔ فوج کو حکومتی امور میں مداخلت اس لیے کرنا پڑی کے پاکستان میں ۱۹۴۷ سے اب تک بھی ریاست اور حکومت میں زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا۔ کچھ ریاستی امور ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں حکومتی مفاد سے ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بریگزیٹ اس کی ایک واضع مثال ہے جہاں ریاست کے مفاد کے لیے تین حکومتیں آناً فاناً چلی گئیں۔
اختیار کے اس توازن میں ایک تو وہ طریق کار تھا جسے ترکی یا بنگلہ دیشی ماڈل کہا جاتا رہا ہے جس میں فوج کی اعلی قیادت کو عملی طور پر حکومت میں شریک کرلیا گیا۔ یہ دونوں ماڈل ترکی اور بنگلہ دیش میں بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے وہ آوازیں اب پاکستان میں نہیں آرہی ہیں۔
آئینی طور پر پاکستان کا صدر ہے تو وفاق کا نمائندہ مگر اسے سلیکٹ ہماری اسمبلیاں کرتی ہیں اور وہی شخص صدر بنتا ہے جو منتخب حکومت چاہتی ہے۔ اس طرح ایک ملازم صدر ہی مقرر ہوتا ہے۔
کیا اچھا ہو کہ صدر کے پاس ۲/۵۸ بی کا اختیار یقیناً نہیں ہو لیکن وہ براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہو۔ وہی جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کا صدر ہو۔ خود اپنی صوابدید سے (وزیر اعظم کے مشورے سے نہیں) چیفس آف اسٹاف، اٹارنی جنرل، اکأنٹنٹ جنرل، چیف جسٹسز، چیرمین بورڈ آف ریوینیو اور سفیروں جیسے آئینی عہدے پر تقرری کرے۔ نیشنل اسمبلی کے منظور شدہ قانون کو واپس بھیج سکے اور اس کے دوسری دفعہ انکار کے باوجود بل پاس نہ ہو بلکہ اسمبلی کاروائی جاری رکھے۔ مزید یہ کہ صدر قانون بنانے کے لیے اسمبلی کو خطاب کرسکے اور ہدائیتی نوٹ بھی بھیج سکے۔ البتہ صدر کو اسمبلیوں کی مخصوص تعداد برخاست کرسکتی ہو۔
مشورہ ہے! مانو یا نہ مانو مرضی ہے!!!
پاکستان لیجیٹیمیسی کرائسیس ۱۹۴۷ سے ہی مسلہ رہا ہے۔ انڈین اینڈیپینڈنس ایکٹ ۱۹۴۷ کے تحت قائداعظم کو ملکہ برطانیہ کی نمائندگی کے لیے ایک ایسا گورنر جنرل چاہیے تھا جو ملکہ کی خوشنودی کی بجائے پاکستان کا سوچے۔ اس لیے انہوں نے خود کو اس عہدے کے لیے سب سے مناسب جانا لیکن اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ گورنر جنرل کی آئینی حیثیت میں انہیں حکومت کے روزانہ کاموں میں دخل دینا پڑا۔ قائد اعظم کی طاقتور شخصیت آئینی ہونے کے باوجود وزیراعظم کو روزانہ ہدایات دیتے رہے۔ ان کے بعد بھی یہ سلسلہ ۱۹۵۶ تک جاری رہا۔ بالاآخر جنرل ایوب نے الزام لگا کر اسکندر مرزا کی غیرآئینی حکومت باضابطہ طور پر ختم کردی گئی۔
اس کے بعد پارلیمانی نظام کو نقصاندہ قرار دے کر صدارتی نظام نافذ کردیا گیا۔ صدر نے بھی وہی کیا جو وزیراعظم کرتے رہے۔۱۹۷۳ میں صدارتی نظام کو نقصاندہ قرار دے کر دوبارہ پارلیمانی نظام نافذ کردیا گیا۔ معراج خالد اور فضل الہی چوہدری جیسے ملازم صدر وجود میں آئے۔ جنرل ضیا کی آمد کے ساتھ ہی آئین کی دفعہ ۲/۵۸ بی کے ذریعے عملاً صدارتی نظام دوبارہ نافذ ہوگیا۔ اختیارات کے توازن کے نام پر صدر کو پارلیمان توڑنے کا اختیار برقرار رکھنے کا نتیجہ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے دخل انداز صدر نمودار ہوئے۔
اسی طرح صدر آصف زرداری جیسے سیاسی قدآور شخصیت نے آئینی صدر کی طاقت اتنی زیادہ بڑھائی کہ وزیراعظم عملی طور پر ایک ملازم کی حِیثیت اختیار کرگیا۔ صدر زرداری نے دوبارہ حکومت کی امید پر ۲/۵۸ بی کو میثاق جمہوریت کے تحت ختم کردیا۔ اس طرح نواز شریف ایک انتہائی طاقتور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے۔ بالاآخر نواز شریف جیسے طاقتور وزیراعظم نے دوبارہ ملازم صدر کو رواج دیا۔
اس ساری کہانی میں کئی فوجی چیف آف سٹاف کا سیاست میں کردار خاصا نمایاں رہا۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج کو براہ راست ریاستی سیاست میں مداخلت کرنا پڑی۔ فوج کو حکومتی امور میں مداخلت اس لیے کرنا پڑی کے پاکستان میں ۱۹۴۷ سے اب تک بھی ریاست اور حکومت میں زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا۔ کچھ ریاستی امور ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں حکومتی مفاد سے ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بریگزیٹ اس کی ایک واضع مثال ہے جہاں ریاست کے مفاد کے لیے تین حکومتیں آناً فاناً چلی گئیں۔
اختیار کے اس توازن میں ایک تو وہ طریق کار تھا جسے ترکی یا بنگلہ دیشی ماڈل کہا جاتا رہا ہے جس میں فوج کی اعلی قیادت کو عملی طور پر حکومت میں شریک کرلیا گیا۔ یہ دونوں ماڈل ترکی اور بنگلہ دیش میں بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے وہ آوازیں اب پاکستان میں نہیں آرہی ہیں۔
آئینی طور پر پاکستان کا صدر ہے تو وفاق کا نمائندہ مگر اسے سلیکٹ ہماری اسمبلیاں کرتی ہیں اور وہی شخص صدر بنتا ہے جو منتخب حکومت چاہتی ہے۔ اس طرح ایک ملازم صدر ہی مقرر ہوتا ہے۔
کیا اچھا ہو کہ صدر کے پاس ۲/۵۸ بی کا اختیار یقیناً نہیں ہو لیکن وہ براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہو۔ وہی جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کا صدر ہو۔ خود اپنی صوابدید سے (وزیر اعظم کے مشورے سے نہیں) چیفس آف اسٹاف، اٹارنی جنرل، اکأنٹنٹ جنرل، چیف جسٹسز، چیرمین بورڈ آف ریوینیو اور سفیروں جیسے آئینی عہدے پر تقرری کرے۔ نیشنل اسمبلی کے منظور شدہ قانون کو واپس بھیج سکے اور اس کے دوسری دفعہ انکار کے باوجود بل پاس نہ ہو بلکہ اسمبلی کاروائی جاری رکھے۔ مزید یہ کہ صدر قانون بنانے کے لیے اسمبلی کو خطاب کرسکے اور ہدائیتی نوٹ بھی بھیج سکے۔ البتہ صدر کو اسمبلیوں کی مخصوص تعداد برخاست کرسکتی ہو۔
مشورہ ہے! مانو یا نہ مانو مرضی ہے!!!
No comments:
Post a Comment