Research

Know the Truth of your Faith

Wednesday 22 August 2018

پاکستان میں مولوی کا کردار

پاکستان میں مولوی کا کردار
میرا خیال ہے کہ ایک اعتبار سے موضوع نامکمل اور ادھورا ہے۔ اس لیے کہ اس موضوع کا ٹائٹل ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں مذہب کا کردار۔ اس لیے کہ پاکستان میں مذہب اور مولوی ایک دوسرے کا مترادف بن چکے ہیں اور یہ ۱۹۴۷ کے بعد نہیں ہوا بلکہ اس کی جڑیں خاصی گہری ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے مغل بادشاہت کے آخری زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ میں اپنے مقالے میں مولوی کو ان تمام مذہبی عمائدین کا شمار کرتی ہوں جو کسی بھی مذہب سے متعلق ہوں۔
برصغیر میں وادی سندھ کی تہذیب پر شمال وسطی حملہ آواروی کے نتیجے میں یہاں کہ مقامی آبادی جو زیادہ تر کول اور دراوڑ قبائل پر مشتمل تھی مغربی برصغیر سے منتقل ہوکر جنوبی اور شمال مشرقی علاقوں میں وادی گنگا کی تہذیب کا محرک بنے۔ یہ حلمہ آور آریا تھے یا نہیں اب ایک بحث کا موضوع بن چکا ہے جس کا میں ابھی آگے ذکر کروں گی، بہرحال اس صورت نے مغربی برصغیر کو وسطی، جنوبی اور شمالی برصغیر سے ایک گونا علحیدہ کردیا۔ یہ خلیج آج تک اپنا اثر رکھتی ہے۔ دوسری طرف ایک نئی دنیا فتح کرنے کے جذبے نے برصغیر سے باہر کی دنیا کے طاقتور اقوام کو برصغیر کےوافر تعداد میں دستیاب وسائل ہتھیانے کی ایک مظبوط تحریک ملی۔نا صرف شمال وسطی اور بعد میں وسطی ایشیا کے سہاشکوں نے یکے بعد دیگرے برصغیر میں مہم جوئیاں کیں بلکہ خود یہاں کی اقوام میں بھی ایک دوسرے کے وسائل ہتھیانے کی تحریک مظبوط ہوئی۔ ۵۵۰۰ قبل مسیح سے ۳۵۰۰ قبل مسیح کے دوران ویدوں کی تاریخ ہمیں، مہابھارت اور رامائن کے زریعے، یہاں ہونے والی جنگوں کا حال بڑی تفصیل سے سناتی ہے۔ کسی خارجی تاریخی حوالے کی غیر موجودگی کے باوجود یہاں کی مقامی اور آبادکار افراد میں اس کی بو ابھی بھی پائی جاتی ہے۔ ویدوں کے بعد گندھارا تہذیب کے بانیوں نے بدھ مت کی میانہ روی کی تعلیمات کو جس شدت اور تشدد سے پھیلایا وہ تاریخ کے اوراق میں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ میرا خیال ہے کے بدھ خود بھی اس پر شرمندہ ہوگا۔ جین مت اور بدھ مت کی شانتی اگر اتنی خاموش ہی رہتی جتنی خود سدھارتھ اور ویر کے ذاتی ملاقات کے دوران رہی تھی تو شائید وہ دونوں اس دھرتی میں پیدا ہونے پر کبھی دکھی نہ ہوتے۔ سائرس کا برصغیر پر قبضہ اور دارا کی چندرا گبتا موریہ سے شکست اور سکندر کا دارا سے ایران اور برصغیر کا چھین لینا سب ہی وسائل پر قبضہ اپنی مذہبی ترویج کے نام پر ہی ہوا۔
انہی حلمہ آروں میں ایک نام عربی یلغار کا بھی ہے جو قریبا ۷۰۰ عیسوی میں ابن قاسم نے شروع کی۔ محمد قاسم کی مرتبہ انسائکلوپیڈیا تاریخ ہند کے مطابق ۶۷۸ میں بنو امیہ سے اختلاف کی پاداش میں بنو اسامہ کو علاقہ پابند کردیا گیا تھا۔ بنو اسامہ کا سربراہ محمد علافی اپنے قبیلہ کو لے کر راجہ داہر کے پاس  مکران کے علاقے میں آباد ہوگیا تھا اور راجہ داہر نے اسے نوابیت دی تھی۔ اسی دوران سعید بن اسلم کلابی کو حجاج نے مکران کا حکمران بنایا۔ محمد علافی کی جانب سے  سنھوی بن لام الحمادی مکران کا حکمران تھا جسے سعید نے دھوکے سے قتل کردیا۔ اس پر محمد علافی نے مکران پر حملہ کرکے سعید کو شکست دی اور سعید اس جنگ میں مارا گیا۔ محمد علافی کا قبضہ سارے مکران پر ہوگیا۔ یعنی جن علاقوں پر عربوں نے خلیفہ عثمانؓ کے زمانے سے قبضہ کررکھا تھا وہ ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اور یہی بنیادی وجہ محمد بن قاسم کے حملے بنی۔ تاریخ فرشتہ میں مہلب بن ابی صفرہ کو پہلا مہم جو قرار دیا گیا ہے جو  پشاور کے راستے۶۶۴میں برصغیر پر حملہ آور ہوا۔ کابل کی فتح کے بعد ایک کماندار خالد بن عبداﷲ نے سیاسی وجوہات کی بنا پر واپس عرب نہ جانے میں مصلحت جانی اور کابل کے نئے حاکم کے خوف سے کابل چھوڑ کر کوہ سلیمان کے علاقے میں آباد ہوگیا۔ تاریخ فرشتہ کی تحقیق کے مطابق لودھی اور سوری خاندان اسی خالد بن عبداﷲ کی نسل سے ہیں۔ بہرحال مسلمان محمد بن قاسم کے حملے سے قبل برصغیر آچکے تھے۔ یہ مسلمان جن میں ربیع بن صبحیح بصری اور اسرائیل بن موسی ہندی اورمالک بن دینار کا نام سر فہرست ہے۔ ربیع تو خیر خلیفہ عمرؓ کی برصغیر پر فوجی مہم کا حصہ تھے جو یہاں ہی مدفون ہوئے البتہ اسرائیل ایک تاجر تھے اور مالک ایک عالم تھے۔
برصغیر آنے والے مسلمان عالم وہ لوگ تھے جنہوں نے برصغیر میں پہلے سے موجود مذہبی تشدد کا تدارک کیا اور تمام انسانوں میں ایک دوسرے کے نظریات برداشت کرنے کا قرینہ سکھایا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ بدھ اور جین کی تعلیمات سے جس بےحسی اور یاسیت کا سبق مل رہا تھا اسے ایک امید میں بدل دیا۔ یہ عالم ہی تھے جنہوں نے بعد برصغیر کے صوفیا کا نام اختیار کیا۔ ان اولین اکابر کے جو لوگ قائل ہوئے اور معتقد بنے وہ یہیں کے رہاھائشی تھے اور ان کے انتقال کے بعد جس طرح وہ اپنے بزرگوں کی قبور کی رکھوالی کرتے تھے اسی طرح ان لوگوں کی بھی کی۔ بعد میں آنیوالے مسلمان علما نے اس روایئت کو توڑنے کی بجائے جاری رکھنے کو درست سمجھا اس لیے کہ ان  کے ذہنوں میں اللہ کے بارے میں کسی شرک کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور وہ اپنی ذہنی روش میں کافی واضع تھے۔
یہاں کے رہنے والے سبھی مذاہب کے ماننے والے انہی بزرگوں سے اپنے سماجی مسائل، مثلاً شادی بیاہ، جینا مرنا، جائیداد و کاروبار وغیرہ کے حل پوچھا کرتے تھے اور ان کی ہدایات پر عمل بھی کرتے تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے قبل، جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکی ہوں، مذہبی تنافر کی ایک فضا قائم رہی ہے جسے مسلمان صوفیا نے تقریباً ختم کردیا تھا جس کی جھلک ہمیں سلاطین دہلی کی یہاں شدت سے موجود رہی جس میں امیر خسرو کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے۔ تاہم اس روادری کی انتہا ہمیں آئین اکبری میں نظر آتی ہے۔ اور یہی وہ زمانہ ہے جب برصغیر میں مسلمانوں میں اس رواداری کے خلاف ایک کروٹ لی گئی۔
یہ تکلیف دینے والی کروٹ، شیخ احمد سرہندی کی تحریک تھی جسے برصغیر کی تاریخ میں نشاۃ ثانیہ کا نام دیا گیا اور شیخ مجدد الف ثانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ شیخ کے والد شیخ عبدالاحد ایک صوفی بزرگ تھے اور سلسلہ چشتیہ سے منسوب رہے تاہم خواجہ باقی اللہ سے بعیت کے بعد شیخ نے تینوں دوسرے صوفیا سلسلے، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کی کمان بھی خود حاصل کرلی اور عوام کو بتایا کہ یہ سعادت انہیں سعودی عرب کے مشہور وھابی عالم امداد اللہ مہاجر مکی کے حکم سے عطا ہوئی ہے اور انہیں یہ ہدائیت شیخ عبدالقادر جیلانی کے فیضِ روحانی سے ملی ہے۔ واضع ہو کہ خواجہ باقی اللہ سے عبدالحق محدث دہلوی بھی بیعت تھے جو مجدد الف ثانی کسی حد تک ہم عصر ہیں۔ محدث دہلوی کی مشہور تصنیف مدارج النبوہ ہے جس پر بحث کا یہ موقع نہیں ہے۔ تاہم اتنا کہنا درست ہے کہ محدث دہلوی کا انداز بہرحال صوفیانہ رہا ہے اور وہ نیاز و نذر کے قائل رہے ہیں جو برصغیر کی تہذیب کا حصہ ہے۔
بہرحال مجدد الف ثانی نے دین کی بقا کے لیے اکبر بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور اسے آئین اکبری کا  نافذ کرنے نہ کرنے پر مجبور کیا۔ یہ قانون برصغیر کی رواداری کے لیے ایک مثبت قدم تھا۔ تاہم مجدد کی تحریک اس حد تک بڑھی کہ انہیں جہانگیر کے دربار میں طلب کیا۔ اس وقت تک بھی علما کا صوفیا سے جدا تشخص قائم نہیں ہوا تھا اس لیے صوفیا کے عوامی اثر کے باعث جہانگیر، مجدد کو قتل نہیں کرواسکا۔ تاہم مجدد کے دین کی اصلاحی کوشش اور بدعتوں کی نشاندہی نے برصغیر میں شیعہ سنی اختلاف کو ابھارنے میں کافی کردار ادا کیا اور مجدد کا سارا غصہ جہانگیر کے مرکزی قاضی نوراللہ شوستری (شہید ثالث) کو شعیہ ہونے کی بنا پر بہانے سے قتل کردیا گیا۔ اس واقعے نے برصغیر میں اسی پرانے افتراق کو زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مجدد کے لگائے گئے پودے جب تناور درخت بنے تو میرہاشم، ملا صالح اور سید محمد جیسے علما نے جنم لیا اور یہ تینوں افراد مغل بادشاہ اورنگ زیب کے استاد بنے۔ ان کی تعلیمات کا اثر تھا کہ بیٹے نے باپ کو اندھا کرکے قید کیا اور بھائیوں کا قتل کیا۔ جبکہ اس کے بڑے بھائی کا استاد صوفی سرمد بھی بادشاہ کے استاد خاص اور مرکزی قاضی شیخ عبدالوی کے فتوی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ وہی سرمد ہے جس کا اپنے قتل سے پہلے کہا گیا مشہور شعرحسب ذیل ہے؛
شورے شد از خوبِ عدم چشم کشودیم ( میں شور سن کرنہ ختم ہونے والے خواب سے جاگ گیا)
دیدم کہ باقیست شبِ فتنہ غنودیم، غنودیم (لیکن جب فتنوں کوموجود دیکھا تو نہ جاگنے کے لیے پھر سوگیا)
برصغیر میں یہ صوفیا کا پہلا باقائدہ قتل تھا جس نے عدم برداشت کی فضا کو پھر سے زندہ کردیا۔ اورنگزیب نے اس کے بعد برصغیر کا پہلا فتاوی تحریر کروایا جس کی ترویج کے لیے ان درباری علما نے بادشاہ کو مجدد کا خطاب دیا اور فتاوی بادشاہ کے نام سے معنون کیا، فتوی عالمگیر۔ یہ وہی فتاوی  ہے جسے برطانوی راج میں مسٹر میکملن نے The Hidaya کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا اور اسے برصغیر کے مسلمانوں کا مسلمہ قانوں بنادیا گیا۔ اورنگزیب نے مسٹر نیل کے مشہور فرنگی محل کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ یہ محل ایک فرانسیسی تاجر مسٹر روبن نیل Ruban Niel نے جہانگیر کے زمانے میں لکھنو تعمیر کیا تھا اور برصغیر میں نیل کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے نام کی مناسبت سے دھلائی کے بعد کپڑوں کے نکھار کے لیے آج بھی یہی رابن نیل استعمال ہوتا ہے البتہ اس پر مسٹر نیل کی تصویر کی بجائے پرندے نیل کنٹھ کی تصویر بنائے جاتی ہے۔ یہ فرنگی محل اورنگزیب نے ضبطی کے بعد اپنے خاص علما سید بن قطب اور اسد بن قطب کی تحویل میں دے دیا جنہوں نے اس محل کو ایک اسلامی مدرسے کی شکل دے دی۔ یہ برصغیر کا پہلا مسلم مدرسہ تھا۔ سید بن قطب کے صاحبزادے نظام الدین سہالوی نے اس مدرسے اس مدرسے میں ایک باقائدہ تعلیمی نصاب ترتیب دیا جو بعد میں درس نظامی کے نام سے معنون ہوا۔ ہرچند کے یہ ایک مدرسہ طریقت کے خلاف شریعت کی پاسداری کے لیے بنایا گیا تھا تاہم اس مدرسے کے زعمأ نے کبھی بھی برصغیر میں رائج مذہبی رسومات جسیے، ۲۲ رجب کے کونڈوں، گیاہرویں شریف کی نیاز، عید میلاد اور محرم، ہولی، دسہرہ، کرسمس اور بسنت وغیرہ کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ ان تمام رسوم کو برصغیر کے تمام شہری بجا لاتے تھے۔
اس مدرسے کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ وہیں کچھ ایسے علما بھی پیدا ہوئے جنہوں نے سرسید احمد خان کی تحریک کی مخالفت بھی کی جس کی ابتدا ۱۸۶۹ میں ہوئی تھی۔ اسی مدسرسے میں یہ تاثر ابھرا کہ  جہاں سے برصغیر میں وہ علما پیدا ہوئے جنہوں نے صوفیائی تہذیب کی نا صرف مخالفت کی بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے باقائدہ تحریک بھی چلائی۔ اس تحریک کا ایک خاص اثر یہ ہوا کہ خود مسلم عقائد میں اختلافات نمایاں ہونے شروع ہوگئے اورسب سے پہلے ۱۸۶۷ میں قاسم نانوتوی نے دیوبند میں مدرسہ قائم کیا جو دیوبندی مکتب فکر کا مرکز بنا جو دارالعلوم دیوبند کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مدرسے نے شریعت (مولوی) کی پاسداری میں طریقت (تصوف) کی راہ کو خوب مسدود کیا اور وہ عام مذہبی رسومات جو عوام میں رائج تھیں انہیں نا صرف غیر اسلامی قرار دیا بلکہ کفر بھی قرار دے دیا۔ اس تحریک کو عوام میں مقبولیت فوراً تو حاصل نہیں ہوئی تاہم قبولیت اس لیے ملی کے ۱۸۵۷ کی جنگ آذادی کے بعد یہ وہ واحد مذہبی تحریک تھی جو برطانوی راج کے خلاف سیاسی کشمکش میں بھی شریک تھی۔ یہ ایک اہم امر ہے کہ تمام مسلم مذہبی مشائخ خاصکر نقشبندی طریقت نہ صرف تحریک آذادی کو غدر (بغاوت) کہہ رہے تھے بلکہ تحریک علی گڑھ کے ایجینڈے کے خلاف کانگریس سے زیادہ قریب تھے۔ مولانا عبدلباری کے انتقال تک فرنگی محل کسی نی کسی طرح باقی رہا تاہم مولانا حسن کے انتقال کے بعد فرنگی محل کے علمأ میں خود اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ سرسید اور علمائے دیوبند میں اسقدر اخلاف بڑھا کہ سرسید کے کفر کا فتوی بھی وہاں سے جاری ہوگیا۔ اس اختلاف کو مٹانے کے لیے فرنگی محل کے فارغ التحصیل عالم عبدالحق محدث دہلوی نے ۱۸۹۴ میں لکھنو میں ہی ایک اور مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں مدرسۃ الندوہ کہلایا۔ تاہم جدید تعلیم کا طرفدار ہونے کے باوجود یہ مدرسہ برصغیر کے مذہبی تشدد کو قلع قمع کرنے میں ناکام رہا اور یہ خود مسلمان ایکدوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دیتے رہے۔ ان حالات میں احمد رضا خان نے ۱۹۲۰ میں رائے بریلی میں ایک نئے مدرسدے کی بنیاد رکھی جو تاریخ میں آگے چل کر بریلوی مسلک کی بنیاد بنا۔
اس سیاسی اور مذہبی کلچر کے تاریخی پس منظر میں پاکستان وجود میں آیا۔ آج پاکستان میں کوئی ایک تحریک بھی ایسی نہیں جو پاکستانی قوم کا ناطہ وادی سندھ کی تہذیب سے جوڑتی ہو۔ ہندوستان تو بجا طور پر اپنا ناطہ گنگا کی تہذیب (وید تمدن) سے جوڑتا ہے تاہم پاکستان کے مسلمان، عرب اور افغان مہم جو لشکر کشی سے باہر نہیں آتے جبکہ یہاں کے مسیحی، نسطوری عیسائیت کے تاریخی پس منظر اور مذہبی رسومات کے باوجود اپنا ناطہ یورپی مسیحیت سے جوڑتے ہیں۔ غیرمسلم آبادی پاکستان میں اتنی کم ہے کہ ان کے رجحان کا براہ راست اثر سماج پر اتنا شدید نہیں ہوپاتا البتہ مسلم آبادی کے برتاؤ کا رد عمل بہت واضع طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی آذادی کو قرارداد پاکستان کی صورت میں اغوا کرنے کے بعد مذہب کا اثر یہاں اتنا زیادہ بڑھا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو خالصتاً مذہبی تشخص رکھتی ہیں وہ پاریمنٹ میں انتہائی قلیل تعداد رکھنے کے باوجود موئثرترین پریشر گروپ ہیں۔ ضروری ہے کہ قرارداد کا اولین حصہ یہاں نقل کیا جائے جو تحریک آذادی کو اغوا کرنے کا باعث بنی ہے؛

"(يہ قرار داد 12 مارچ 1949ء كو پاكستان كى پہلی دستور ساز اسمبلى نے منظور كى۔يہ قرار داد پاكستان كے آئین کے ليے رہنما اصول متعين كرتى ہے۔) ​
اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت ِ غیرے حاکم ِمطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔"

گویا وہ منتخب نمائندے جو جمہور (عوام)  منتخب کرتے ہیں وہ الہی ہدائیت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں یہ اختیار ایک مقدس امانت کے طور پر تفویض ہوتا ہے۔ اس قرارداد نے پاکستان میں مذہب کے استعمال کو بلاشرکت غیرے مولویوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ آذادی ہند کے قانون مجریہ ۱۹۴۷ کے مطابق پاکستان برطانوی راج کے ان حصوں پر مشتمل ہونا تھا جہاں مسلم آبادی کی اکژیت تھی اور یہ بھی درست ہے کہ تقسیم ہند ان علاقوں میں ایک عوامی ریفرینڈم کے نتیجے میں معروض وجود میں آنا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آذادی ہند کے قانون مجریہ ۱۹۴۷کی ریڈ کلف ایوارڈ کے واسطے سے نہایت منظم دھاندلی کے زریعے مجوزہ پاکستان کی ممنکہ شکل بالکل تبدیل کردی گئی۔ اس طرح مسلم لیگ کو ان مذہبی عناصر کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑا جوتحریک آذادی کے مخالف رہے تھے اور برصغیر میں مذہب کے نام پر ، تیتومیر، سید احمد شہید، ریشمی رومال اور تحریک خلافت جیسی پرتشدد مہموں کے محرک رہے تھے۔ یہ تحریکیں بلاشبہ انگریزوں کے خلاف منظم ہوئی تھیں تاہم ان کے اسلامی تشخص کی وجہ سے اس میں صرف مسلم آبادی ہی شریک تھی اور برصغیر کے عام اور خود لبرل مسلمان ان سے لاتعلق رہے۔
جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ ان روایات کے ساتھ جنم لیے والے پاکستان میں بہت جلد اس مسلم تشخص نے مسلح جتھے بندی کی شکل اختیار کرلی۔ تاریخ پاکستان میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اطلاع بہت حیران کن ہوگئی کہ پاکستان میں قائم ہونے والی کیمونسٹ تحریک اور ترقی پسند ادیبوں کی انجمن بہت جلد ٹوٹ گئی اور صف ہراول کے کیمونسٹ مسلمان ہوگئے اور ترقی پسند شعرا نعت گوئی۔ غریب پاکستانی خاندانوں کے بچے غذائی قلت کا شکار ہوئے اور حکومتی غیرمسلسل پالیسی کی وجہ سے سوسال سے قائم مذہبی مدرسوں نے ان خاندانوں کا کفیل ہونا قبول کیا۔ افسوس جمہوری پارٹیاں، صوفیائی تحریکیں اور کیمونسٹ پارٹی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکے۔ اس عوامی غربت نے مسیحی مشنوں نے جس میں صف اول میں سالویشن آرمی کا نام شامل ہے، غریب گھرانوں کی کفالت کا بار اٹھایا اور بہت سی مسلم آبادی مسیحیت میں تبدیل ہوگئی۔ اس صورتحال نے مسلم جماعتوں کو مزید سرگرم ہونے کا موقع ملا۔ (دیکھیے پاکستان میں مسیحیت اورجماعت اسلامی کا کردار از آقائی صادق گنجی اسلام آباد اسکول آف اسٹریٹیجی مطبوعہ ۱۹۸۹).

No comments:

Post a Comment