Research

Know the Truth of your Faith

Tuesday 20 August 2019

لال بھجکھڑ


لال بھجکھڑ

کہتے ہیں پنڈت لال بھجکھڑ کہیں سے گذررہے تھے کہ ایک آدمی کنویں میں گر گیا۔ لوگوں میں سے ایک دانا نے کنویں میں رسی پھینکی اور آدمی کو کہا کہ اسے کمر سے باندھ لو۔ اس آدمی نے رسی کمر سے باندھ لی۔ دانا نے لوگوں سے کہا کہ اب اس کھینچ لو۔ آدمی کنویں سے باہر آگیا۔
لال بھجکھڑ نے سیکھا کہ پھنسے ہوئے آدمی کو کمر سے رسی باندھ کر کھینچنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
کچھ دن گذرے تھے کہ راہ چلتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی درخت پر پھنس گیا ہے اور اس سے اترا نہیں جارہا۔ لال بھجکھڑ کو دانائی آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لال بھجکھڑ ہمارے سماج میں جابجا پائے جاتے ہیں۔ علاج معالجہ، مذہب، سیاست، عمارت سازی، عدلیہ، دفاع، خارجہ تعلاقات غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لال بھجکھڑ اور ان کے مشورے حاضر ہیں۔ یوٹیوب چینلز پر، فیس بک والز پر، ٹیوٹر الرٹ پر اور حد یہ کہ لنکڈان فیس پر بھی ایسے مشورے حاضر ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ دکھ اس بات پر نہیں ہے کہ ہمارے یہاں خونی بواسیر کا علاج تعویز گنڈوں سے کیا جاتا ہے، بلکہ اس بات پر ہے کہ لوگو صحتمند بھی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
ںہیں ہے تو اس شعبے کا مشورہ نہیں ہے جس میں خود کام کرتے ہیں۔ اپنے ہی کام سے نفرت ہمارا ہی خاصہ ہے!
جہالت کی سب سے افسوسناک حالت وہ ہوتی ہے جہاں خود کسی کو جہل سے نکلنے کی جستجو نہ ہو۔ جس بارے میں مکمل آگہی نہ ہو اس پر رائےزنی مناسب نہیں ہوتی۔ ذاتی تجربہ آفاقی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ سب پر، ہر حالت میں، ہروقت لاگو نہیں ہوسکتا۔ ذاتی تجربے سے آفاقی نتائج اخذ کرنا اور سب پر لاگو کرنا اخلاقی جرم ہے۔

No comments:

Post a Comment