Research

Know the Truth of your Faith

Wednesday, 7 May 2014

کراچی کے مسائل کا حل اور اسلام

کراچی کے مسائل کا حل اور اسلام

ایک زمانہ تھا کہ ہمارے مسائل ہمارا مذہب حل کرتا تھا ۔ یاد کریں اور بتائیں کہ کب ہمارے مسائل کو ہمارے مذہب سے حل کروانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ شائید ابھی آپ پیدا  نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں تو یاد ہے کہ ہمارے ہر کام میں رکاوٹ مذہب کا  نام لے کر ہی ڈالی گئی ہے۔ نہیں نہیں میں یہاں مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہہ رہا ہوں ، میں تو بس آپ کے سے چند سوال کرنا چاہا رہا ہوں۔ آخر کب یہ فیصلہ ہوگا کہ مذہب اور دنیا دو جدا اعمال نہیں ہیں؟ علمأ نے اپنی پوری توانائیاں دین اور دنیا کو جدا کرنے میں صرف کردیں ہیں اور خوب جانفشانی سے آپ کو یقین دلا دیا ہے کہ دنیا کے کسی کام سے اگر آخرت کا ثواب مل سکتا ہے تو وہ یہ دنیا تیاگ دینے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ورنہ یہ دنیا تو ہے ہی برائی کی جڑ۔ تاہم آپ پلٹ کر یہ سوال کریں کہ حضرت آپ خود بھی تو دنیا کی آسائشوں سے خوب لطف اُٹھا  رہے ہیں تو ایک کڑکدار آواز میں جواز ملتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں نیک انسانوں کے لیے وقف ہیں۔ ویسے بھی علمأ کا خطبۂ جمعہ ہو یا عید کا واعظ ہر عالم آپ کو آپ کے گناہ یاد دلاتا ہے اور آپ پر آشکار ہوتا ہے کہ آپ سے زیادہ منحوس اور کوئی مخلوق اس جگہ ہے نہیں ہے۔ 

علمأ کا بندوں پر کیا حق ہے؟

جی جی میں تو صرف یہ ہی بتا رہا ہوں کہ آپ نے بھلا مذہب کے لیے کیا کیا ہے؟ سال میں چند سکے بڑا احسان کرتے ہوئے علمائے کرام کے پر ہاتھ کر اپنے تئیں نیکی کمائی ہے۔ کیا آپ نے سارا سال نماز مسجد میں ادا کی؟ کیا آپ نے زکات کی رقم علمائے کرام کو ایمانداری سے ادا کی؟ کیا آپ نے اپنی "عیاشی" ترک کرتے ہوئے حج کی کوشش کی؟ کیا آپ نے اپنا نام حضرت مولانا کے پاس برائے جہاد درج کرایا؟ کچھ بھی تو نہیں۔ اب اگر آپ ابھی فوت ہوگئے تو اپنا یہ گناہگار چہرہ لیکر  کیسے حوروں سے معانقے کی امید رکھتے ہیں۔ وہ دودھ اور شہد کی نہریں محض ان جانفشانوں کے حصے میں آئیں گی جو اس دنیا کو چھوڑ چکے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا صرف عبادت ہے۔ وہ خالص بندے اپنی شلواریں پاکیزگی کی خاطر پنڈلیوں پر باندھتے ہیں اور اپنی بے ترتیب ڈاڑھی کو ہوا میں معلق چھوڑ دیتے ہیں اور اس بات کا ہرگز لحاظ نہیں رکھتے کہ وہ کونسے زمانے میں بستے ہیں اور یہ ملحد دنیا والے ان کے بارے میں کیا ہرزہ سرائی کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے اس دنیا   کی نعمتوں سے موڑ لیا ہے اورہرگز اس دنیا سے آخرت کا لحاظ نہیں کیا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا کو آخرت کی کھیتی اسی لیے کہا گیا تھا کہ اس دنیا سے منہ موڑ لیا جائےاور یہاں کی مشقتوں سے آسانی سے نکلنے کا یہ ہی بہتریں حل ہے کہ ساری ذمہ داری سے کترا کر کر خالص عبادت میں غرق ہوا جائے۔

ایمان داروں کے لیے دنیا ایک قید خانہ ہے

یہ پاکباز اور صلے کے حقداران جانتے ہیں کہ انسان کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو آسائش، غذا، سکون، اور نعمتوں کی فراوانی اور سہولت زندگانی اس دنیا میں نہیں بلکہ دوسری دنیا میں ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ یہ دنیا کیا ہے بھلا محض اسّی پچاسی سال؟ جس کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جائے، تگ و دو اور بےکار محنت اس پیسے کی لیے کی جائے جو آپس میں لڑوادے؟ سارا قصور اس پیسے کا ہی ہے یا اس کے عقب میں شیطان کی کرفرمائی۔ برا ہو شیطان کا کہ انسان کو مسلسل دھوکا دیتا ہے اور بلاوجہ انسان کو راہ سے بھڑکاتا ہے ورنہ تمام انسانوں کی سرشت تو اچھائی پر رکھی گئی ہے۔ اگر ایک یہ کمبخت نہ ہوتا تو سب انسان مسلمان ہی ہوتے اور جنت میں ہی جاتے۔

کراچی کے مسائل کا حل اسلام ہی ہے

یہ تو ضمنی بات تھی اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کراچی کے مسائل کا کیا حل ہے اور ہمارا ٰعظیم مذہب اسلام اس کا کیا حال تجویز کرتا ہے۔ دیکھیے آجکل میڈیا کا دور ہے اور علمائے کرام نے اس ناپاک شعبے کو پاک کرنے کی بھرپور سعی ہے اور اسی میڈیا کے ذریعے ہمارے عظیم مذہب کے عظیم پیغامات نشر کیے ہیں۔ انہی نیک کاموں کی وجہ سےیہ شعبہ ترقی کررہا ہے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی باطل اس وقت تک پنپ نہیں سکتا کہ جبتک اس میں حق کی آمیزی نہ کرلی جائے۔ علمائے کرام جانتے ہیں کہ اخلاقیات کے تمامتر اصول ہمارے عظیم مذہب سے ہی مستعار لیے گئے ہیں اور ان سے پوری دنیا مفت میں افادہ کررہی ہے۔ یہ ہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے کراچی کے مسائل پلک جھپکتے میں حل ہوسکتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کئی بار بہت سارے جئید علمائے کرام میڈیا پر کرچکے ہیں۔ وہ سب یہ بات کھول کھول کر ان بے تکے اور ناسمجھ عوام کو بتا چکے ہیں ہیں کہ اگر اس ملک میں ایک بار اسلامی نظام نافذ ہوجائے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ مگر ان عیاش حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔
آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا واقعی امن ہمارا اولین مسلئہ ہے؟ جی نہیں، ہم سب مسلمان بھائِ ہیں اور ہمیں یاد ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں کہ جب کسی ایک حصے میں بیماری ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے۔ محض ہنود و یہود کی سازش امن کا ہوّا کھڑی کرتی رہتی ہے۔ آپ سارا دن سڑک پر رہتے ہیں کیا کوئی کام رکا؟ کیا واقعی ہمیں گرمی پریشان کرتی ہے؟ ہرگز نہیں ہمیں جہنم کی گرمی یاد رہتی ہے- لہذا یہ لوڈشیڈینگ وغیرہ ہی نہیں بس عیاش حکمران آج حکومت چھوڑیں اور زمام اقتدار علمائے کرام کے حوالے کریں، کل اسلامی نظام نافذ ہو اور ادھر تمام مسائل حل۔ بھلا کیا ہی طنز ہے؟ نہیں ابھی میں اسلامی طرز حکومت کا عملی نظریہ پیش کرتا ہوں آپ خود تسلیم کرلیں گے کہ واقعی سارے  مسائل کس طرح  حل ہوتے ہیں؟سب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ میں صرف کراچی کی بات کررہا ہوں باقی سارے پاکستان سے مجھے اس لیے غرض نہیں کہ یہ ملک خداداد ہے اور اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے ہمیشہ قاِم دائم رہے گا۔ ہاں البتہ کراچی مغرب کی اندھادھند تقلید میں اس مقام پر آگیا ہے جہاں سے آگے صرف تباہی کا غار ہے۔

خواتین: اسلام کا سلگتا مسلہ ہیں

پہلا قدم جو ہمیں اٹھانا ہے وہ خواتین کی بلاجھجھک اور بے ہنگم تعلیم ہے۔ خواتیں کا جائز مقام گھر ہے چنانچہ انہیں اس تعلیم تک محدود کرنا ہوگا جو گھر کو جنت بنانے کے کام آئے۔ میڈیکل سائنس، انجنئیرنگ، کامرس، فوجی اور پولیس جیسے مردانہ کاموں میں اس صنف نازک کا کیا کام؟ گھریلو سلیقے کی تعلیم بھی اگر نیک اور باپردہ مدرسات گھر پر ہی جاکر انجام دیں تو برکت اور بڑھ جائے گی۔ ناصرف مردوں کے لیے ملازمتوں کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے جنہیں محنت کے کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ زیادہ مرد زیادہ آمدنی گھر لائیں گے اور اس طرح خوشحالی ہوگی۔ خواتین کو میری اس تجویز سے ناراض نہیں ہونا چاہیے اور مغرب کی نقالی میں اسلام کے زریں اصول کی پامالی کی وجہ نہیں بننا چاہیے تاکہ ان پر فرشے رحم کریں۔ خواتین کو یاد رکھنا چاہیے کہ زیادہ تر خواتین ایسی روش کی وجہ سے پہلے ہی جہنمی قرار دی جاچکی ہیں۔ البتہ وہ خواتین جو اپنے خاوند کی وفاشعار،  اورکفائیت شعار ہیں اور خاوند کے سامنے زبان درازی نہیں کرتیں اور ان کی تابع بن کر رہتی ہیں وہ اپنے خاوند کی نیک اور صالح باندی بن کر جنت میں انہیں واپس مل جائیں گی۔ یہ یاد رکھیں کہ اسلام نے خواتیں کو ایک باعزت مقام عطا کیا ہے اور جو استحصال وقت آمد اسلام کیا جارہا تھا اس میں تخفیف کردی ہے۔ اس طرح خواتین کی شادی کا مسلہ بھی حل ہوجائے گا۔ وہ لڑکیاں جو اچھے رشتے نہ ملنے کی وجہ سے معاشرے میں برائی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں انہیں اچھا کمانے والے مرد مل جائیں گے۔ مردوں کو ویسے بھی ایک وقت میں چار شادیاں کرنے کی کھلی اجازت ہے۔  چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس نے ان مسائل کا حل پہلے ہی تجویز کردیا ہے جس کی انسانیت کو ضرورت تھی۔

مذہبی منافرت کا حل

دوسرا اہم مسلہ مذہبی منافرت ہے جس کی واحد وجہ ہنود و یہود کی ایک منظم سازش ہے۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہ سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع ہوگئی تھیں۔ یہ سازشیں اتنی طاقتور تھیں کہ ایک عبدﷲ بن سبا جیسے ایک مکار شخص نے اس زمانے کے سادہ لوح اور نیک مسلمانوں کو آپس میں لڑوا دیا تھا اور کئی صحابہ رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم سلام اس روش میں بہہ گئے، میں اور آپ تو ہیں کس کھیت کی مولی؟ اس کا آسان حل ہے کہ تمام قبیح اور ناپسندیدہ رسوم و رواج پر یکسر پابندی عائد کردی جائے جو اسلام میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ ہنوستان میں بسنے کی وجہ سے اور مسلمانوں کی روائیتی فراخدلی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ریشہ دوان ہندوؤں نے سادہ لوح اور دریا دل مسلمانوں کی عبادت میں کچھ ایسی رسوم داخل کردی ہیں جنہیں آج عام مسلمان اپنی عبادت کا حصہ سمجھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک سنگین حالت ہے۔ بھلا اگر ان رسوم کی بجاآوری کے دوران موت آجائے تو کیا جواب دیں گے؟ لہذا ہمیں آخرت سے ڈرنا چاہیے ناکہ کسی فساد کے اندیشے سے۔ ظاہر ہے جب علمائے حق، آوازہ طلب حق برپا کریں گے تو وہ ناسمجھ مسلمان جو ہنود و یہود کی اس سازش کا شکار ہیں تذبذب کا شکار تو ہوں گے تاہم جلد ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں گے، ہاں البتہ وہ ناپاک شیطانی آلہ کار زندیق جو خود کو مسلمان ظاہر کیے ہوئے ہیں، آشکار ہوجائیں گے۔ کیا آپ ان کو بھی تحفظ دینا چاہیں گے؟ یقیناً نہیں۔ ہاں ہاں آپ جانتے ہیں کہ یہ وہ ٹولہ ہے جو اسلام میں تفریق کا باعث بن رہا ہے اور انسانی بنیادی حقوق جیسے بے بنیاد اور کھوکھلے نعرے سے اسلام جیسی آفاقی حقیقیت کو بدنام کررہا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر کوئی بنیادی انسانی حق ہے تو وہ صرف اور صرف عبادت میں خلوص حاصل کرنے کا نام ہے اور کچھ بھی نہیں۔ ہمارا کام محض عبادت اور اسلام کا نام روشن کرنا ہے باقی روزگار اور غذا کا بہم بہنچانے کا ذمہ خود خالق کا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ آپ معاشرے میں ڈاکٹروں، انجئنیروں اور وکیلوں کا تو آبادی کے تناسب سے طے کریں اور مذہب کو نظرانداز کردیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بےبہرہ اور عاقبت ناندیش انسانوں کو مذہب اور علمأ کی ہے جو آپ کی بخشش کی ضامن ہوتے ہیں۔ اس گوناں گو مصروف دنیا میں جو آج اپنی ٰعظیم آخرت کو یکسر بھلا بیٹھی ہے، ہر دس افراد کو ایک عالم حق کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ اپنی روح کی تشفی کا بندوبست کرسکے اور اس لالچی، خودغرض اور فانی دنیا سے پیچھا چھرانے میں کامیاب ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام افراد ایک یگانگت سے بہرہ مند ہوں اور آپس کی تفرقہ بازی میں نہ الجھیں بلکہ ایک ہی فرقہ حق سے متعلق ہوں جو کافروں پر شدید اور آپس میں رحمدل ہوں۔

اسلامی معاشرہ ایک طرح کی جنت ہے

آپ خود انصاف سے کام لیں کہ جہاں مرد خوشحال ہوں اور ان کی بیویاں انکے گھروں میں خوش اسلوبی سے ان کی اولاد کی صالح تربیت میں مصروف ہوں۔ تمام افراد کی اولین ذمہ داری نظام صلوۃ قائم کرنا ہو۔ دن میں پانچ وقت ہر قسم کا کاروبار بند ہوجائے۔ افراد رات کو جلدی گھر آجائیں اور اپنی بیویوں کی محبت بھری رفاقت سے فارغ ہوکر نماز تحجد میں مصروف ہوجائیں اور مصلے پر صبح ہوجائے۔ کیا ایسے معاشرے میں امن و امان کا مسلہ پیدا ہوگا؟ کیا ہم بدتہذیب لوگوں کی طرح، جیسے مغرب ہوا کرتا تھا، سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔ ویسے بھی یہ احتجاج کا طریقہ مغرب کی ایجاد ہے۔ ایک سچا کھرا مسلمان اسطرح کی بدتمیزی کا مرتکب نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنی نماز میں دعا کی صورت میں ادا کرتا ہے اور وہ بھی شکائیت سے نہیں کہ جیسے اس کا مالک اسے رکھے۔ مسلمان کبھی بےتاب نہیں ہوتا۔

سوال سے مت گھبرائیں

یہ سوال ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اور آپ کو دعوت دی ہے کہ آپ عقل استعمال کریں اور فیصلہ کریں کہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ووٹ جیسے ملحدانہ عمل کا شکار ہوجائیں گے یا شریعت کے نفاذ کی دعا کرتے ہوئے علمائے کرام کا ساتھ دیں گے۔ یاد رکھیے کہ جو کوئی اپنی مرضی کرے گا وہ خود آخرت کے عذاب کا ذمہ دار ہوگا اور رحمت سے دور کردیا جائے گا۔
وسلام و خیراندیش۔

No comments:

Post a Comment