ہم استاد کے پاس پہنچے تب وہ آسمان کو تکے جارہا تھا۔ ایک ٹک اور خاموش۔ اس نے ہمیں آتا دیکھ کر سر نیچا کرلیا اور ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو خالی تھیں ۔ بالکل خالی۔
ہم نے استاد سے پوچھا کہ یہ آنکھیں خالی کیوں ہوتی ہیں
استاد نے کہا، مورکھ آنکھیں خالی نہیں ہوتیں، من خالی ہوتے ہیں۔ اگر من میں جلن ہو تو آنکھیں جلتی ہیں شعلے برساتی ہیں۔ من ناچتا ہو تو آنکھیں چنچل ہوجاتی ہیں۔ من سوچتا ہو تو آنکھیں چپ سادھ لیتی ہیں۔ لگتا ہے خالی ہیں۔
وہ کہتا رہا
پتہ ہے یہ سب لگن ہے۔ چپ سادھ بھی ایک لگن ہے۔ اپنے سے ملنے کی تڑپ ہے۔ اصل سے بچھڑنے کا غم ہے۔ سب لگن ہے۔ دھک سھک کرتا من بھی اصل کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ شریر میں دوڑتا لہو بھی اصل کی تڑپ میں بھاگتا ہے۔ یہ دھرتی، یہ ساگر۔ یہ امبر، سب اصل کی طرف بھاگتے ہیں پر مورکھ جانتے ہی نہیں کہ سب گول گول گھومتے ہیں، کہیں نہیں جاتے۔ اصل ان کے بھیتر ہے، وہ اپنے کو کہیں باہر کھوجتے ہیں، اس لیے گول گول گھومتے ہیں۔ پھر تھک کر گر جاتے ہیں،کہتے ہیں یہ جیون تھا، اب انت ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں اب شروع ہوا ہے۔ تم گول گھومتے گھومتے اپنے جیون میں چھید کرچکے تھے اور اب اس چھید میں پھنس چکے ہو۔ چھید سے نکلنے کے واسطے گول گھومنا بند کرنا ہوگا۔ تم ہی بتاو یہ جیون کا انت ہے یا شروع؟
جلن، پیار، دھکاوا، بھلاوا، پکار سب ایک طرح سے لگن ہے۔ مگر یہ لگن چھید کرتی ہے۔ ایسی لگن ہے جو گول گھوماتی ہے کہیں جانے نہیں دیتی ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہے اسی لیے چپ سادھ بھی ایک لگن ہے، ہمیشہ دوسرے کو اپنے بھیتر آنے دیتی ہے۔ سب کو انہیں سے ملا دیتی ہے۔ ایسے من خالی ہوجاتا ہے، کہیں انت نہیں ہوتا۔ اس لیے آنکھیں خالی دکھتی ہیں۔ جلن ہو تو آگ برساتی ہیں، دکھ ہو تو راکھ ۔
بات چپ سادھ کی ہے۔
جلن، پیار، دھکاوا، بھلاوا، پکار سب ایک طرح سے لگن ہے۔ مگر یہ لگن چھید کرتی ہے۔ ایسی لگن ہے جو گول گھوماتی ہے کہیں جانے نہیں دیتی ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہے اسی لیے چپ سادھ بھی ایک لگن ہے، ہمیشہ دوسرے کو اپنے بھیتر آنے دیتی ہے۔ سب کو انہیں سے ملا دیتی ہے۔ ایسے من خالی ہوجاتا ہے، کہیں انت نہیں ہوتا۔ اس لیے آنکھیں خالی دکھتی ہیں۔ جلن ہو تو آگ برساتی ہیں، دکھ ہو تو راکھ ۔
بات چپ سادھ کی ہے۔
No comments:
Post a Comment