عالمی برادری اور دہشت گردی
دہشت کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔انسان اس لفظ سے بچپن سے آشنا ہوجاتا ہے بچپنے سے لےکر جوانی تک اندھیرے سے دھشت عادی رہتی ہے،خوفناک کہانیاں پڑھنے کے بعد دل ڈرتا ہے کہیں سچ مچ اےسا نہ ہوجاۓ ۔شرتی کہانیوں میں دہشت بہت زیادہ اور نمایاں رہی ہے اس لیے کہ کہانی کے بعدبھی بچوں کو قابو میں رکھنے کے لیے دہشت ذدہ کمرے کا عام رواج ہے۔
لہذا میں پھر اس بات کو دہراتا ہوں کہ دہشت کویٔ نیا لفظ نہیں ہے۔
برصغیر میں خود کو دوسروں سے دہشت کرنا اور کرانا پرانی اور روایتی بات ہے۔عزّت کی بات کون کرتا ہے،دوسرے کی برایٔ اس کی دہشت ہے۔بڑا سرکاری افسر ہو یا خوفناک مجرم اس کی حیثیت کی شناخت اس کی دہشت ہے۔یہی حال بڑی اور چھوٹی اور بڑی اقوام کا بھی ہےمعاشی برتری بھی اسی وقت تسلیم شدہ ہے جب وہ دوسری چھوٹی قوم کی معاشی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے دہشت تک پہنچ گئے۔ایک زمانے میں تو یہ بھی روایت تھی کہ مائیں بچوں کو سلانے کے لئے فلاں کی دہشت ذدہ دھمکی دیتی تھیں۔
بہر حال یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ دہشت خواہ کیسی رہی ہو ‚باعث افتخار گردانی جاتی رہی ہے۔میرے خیال میں دہشت اور رعب ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔اور ان الفاظ کی علیحدہ علیحدہ شناخت دوبارہ کرنا نہایت اہم اور ضروری ہوسکتا ہے۔ےا رعب کے سامنے ایک مافی الضمیر بیان کردینے رعب کی عزّت نفس مجروح نہیں ہوتی اور نتیجہ بہر حال رعب کے خاتمے پر نہیں ہوتا۔مگر دہشت کے سامنے یہی عمل رعب کے اپنے اختتام تک مزید آتا ہے۔دہشت بظاہر ڈاکو کی ہو ،شیرببر کی ہو،[دادی کی کہانیوں کی ہو، سلطان ایوب کی ہو یا چنگیز خان کی ہو انسانی نفسیات میں ترقی کے عمل کو روکتی ہے۔یہ ایک عمل دہشت کو ہرا قرار دینے کے لئے کافی ہے۔
تمام مذاہب اور تمام تر تمدّن اور نظام ،جدید تہذیبیں جب بھی انسانی ترقی کی بات کرتے ہیں تو جاری ترقی کے پس پردہ انسانی نفسیات کی منطق اس میں حائل ہوتی ہے۔ نفسیاتی طور پر دبا ہوا شخص جاری ترقی کے حصول کرسکتا بھی کیا۔مادی لذتیں ہوں یا روحانی لذتیں،نفسیاتی طور پر دبے ہوئے افراد کماحقہ بہرمند نہیں ہوسکتے ہیں۔افسر کے بیکار لطیفے پر بے دلی سے ہنسنا۔
دہشت کا سلسلہ بڑی اور چھوٹی اقوام کا بھی ہے اور بین الاقوامی بھی ہے۔یہ دہشت بعض اوقات ترقی یافتہ اور پس ماندہ اقوام کے درمیان حسد کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔اور آج کل تو دہشت ایک باقائدہ سلسلہ بن گئی ہے۔دہشت پھیلانا ابھی تک HHOکے عالمی چاٹر میں جرم کے طور پر درج تو نہیں ہوا مگر اس عمل کو جرم مان کر درج کرلیا گیا ہے۔ماضی قریب میں دوجنگجو اقوام کے درمیان اچانک دہشت کردہ عمل کرایا گوریلا عمل کہلاتا ہے۔تب یہ پسندیدہ بھی تھا۔خود انسانی تاریخ ایسے واقعات سے نہ آشنا نہیں ہے۔معدوم تاریخ میںXenophobia 431-350 ق م، میں دشمن کے خلاف دشمن سڑکوں میں نفسیاتی جنگ کا حامی ہے۔اتھارویں صدی میں دشمن کے خلاف دہشت پھیلانا ایک اچھا عمل کہا جاتا رہا ہے۔Robespierre 1973-94 جنگ کے دوران اس عمل کی کھلم کھلا حمایت کرتا رہا ہے۔ردہکی خانہ جنگی
(65-1861)کے دوران KKKفالی تنطیم دہشت کو بھرپور طریقہ سے استعمال کررہی ہے۔
انقلاب روس کے دوران ان کا روائیوں کو نہایت منظم طریقہء کار دستیاب رہا ہے۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی انگریزوں کے خلاف Monkey Briefer جیسی تنظیموں نے دہشت کی کاروائیوں خوب بنیاد ڈالی ہے۔اسلامی تاریخوں میں ابوالصفاح، حجاج اور یزید جیسے نام اس عمل میں شہرت یافتہ ہیں۔
بیسویں صدی نے اس دہشت کے عمل کو ایک باقائدہ منظم عمل کے طور پر ابھارا ہے ۔اب یہ خالی دہشت کا عمل نہیں رہ گیا ہے۔اب یہ دہشت گردی بن گیا ہے۔اطلاعات کی بروقت اور جلد ترسیل نے ان عوامل کو عوام تک پہنچانے اور اس پر تفصیلی ،تصویری رپورٹوں نے اس عمل کے خوف میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔انقلاب روس کے دوران اوپس کی کامیابی کے بعد ویت نام، کمپوڈیا، اآسام ، سری لنکا ، ملائیشیا اور فلپائن میں جن تحریکوں نے جنم لیا وہ دہشت گردی میں کسی نہ کسی طرح ملوث رہی ہیں۔
مشرق بعید نے یہ سبق یورپ سے سیکھا تھا اور مشرق بعید نے یہ سبق مشرق وسطی کو بھی سکھادیا۔دہشت گردی کا یہ عمل مذہبی بھی رہا ہے قومی بھی رہا ہے اور نسلی بھی رہااور مادقاءی بھی۔مگر حیرت کی بات ہے کہ جب یہ عمل مشرق وسطی سے نمودار ہوا تو اس کو اسلامی دہشت گردی کہا جانے لگاابوفدال، ابوسہان ، حماس، الجہاد، القاءدہ اور طالبان اسی نوعیت کی جماعتیں ہیں جس طرھ فرانس، سہن، امریکہ، روس اور آئرلینڈ میں تھا۔وہ عیسائی نہیں تھےجس طرح کمبوڈیا، ویت نام، جاپان اور فلپائن میں تنظیمیں بدھ مت نہیں تھیں بالکل اسی طرح میڈل ایسٹ کی تنظیموں کو ساری دنیا انہیں تک میں کی ہوں تسلیم کرتی ہیں۔
یہاں پر ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ دہشت گردی کی Definition کی جائے اس بات کو رکھنا بہت ضروری ہے کہ دہشت اور دہشت گردی دونوں سامنے کی بات ہیں۔انسانی تاریخ میں یہ نام اور عمل دونوں کام جانے پہچانے رہے ہیں۔دراصل روس کے گرد حفاظتی دیوار گرجانے کے بعد دنیا کے سہانی افق میں تبدیلی آگئی ہے۔بظاہر امریکہ واحد سپر طاقت ہونے یا رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔وہ اس ضمن میں بے شمار اقدامات کر رہا ہے۔ان اقدامات میں رکاوٹ صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ خود HIT کے بہت سے ملک، اور اس کے اقتصادی ملک بھی اس عمل کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں۔ایک مطالبہ اور بگڑتا جارہا ہے۔کہ دہشت گردی اور تشدّد یعنی الفاظ قبال یت کر لئے جائیں۔تشدّد دہشت گردی کاحصّہ ہوتا ہے خود دہشت نہیں ہوتا۔دہشت کی وجہ ہوتا ہے لہذا یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ دہشت گردی کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں یعنی اگر ان وجوہات کو جان لیا جائے تو مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہےدہشت گردی کی وجوہات کیا ہیں؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی اور تحریک آزادی میں امتیاز کیا جانا ضروری ہے۔جب کوئی آپ کی بات نہیں سنتا،آپ کو کہیں سے الفات نہیں ملتا آپ کو کوئی داد رسی نہیں ہوتی آپ تنہا کرہے جاتے ہیں تو آپ کے پاس لڑائی کے عادوں کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔یہ درست ہے کہ لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہوتی تمام مسائل Table پر آنے سے حل ہوئے ہیں مگر یہ بات کتنی غلط کہی جائے گی کہ دو متحارب گروہوں کو Table تک لانے میں لڑائی نے کتنا کردار ادا کیا ہے۔نکارگوا، ایکوئے ڈور، آئرلینڈ، آسام جیسی مثالیں موجود ہیںجو کبھی متحارب تھے اور بعد میں Tableپر آنے سے مسائل حل ہوئے۔
حالیہ دور میں حماس اور حزب اللہ کے Tableپر آنے کی زندہ مثال موجود ہے۔ Tableتک آنے میں ان تحریکوں نے کیا قربانیاں دی ہیں یا ان کو Tableتک لانے میں دوسری قوموں نے کیا قربانیاں دی ہیں ایک اور سوال ہے۔
کون اس بات کو تسلیم کریگا کہ ایک مسلمان عورت یہ چاہتی ہو کہ اس کا شوہر کمانے کے لئے نکلے اور ایک بم دھماکے میں مارا جائے۔کیا واقعی ایک یہودی خاندان یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچّے تعلیم حاصل کرنے اسکول جائیں اور دہشت گردی کی نظر ہوجائیں۔دنیا کا کون سا خطہ ایسا ہوگا جہاں لوگ اپنے پیاروں کو اس آگ یں جلانا پسند کریں گے۔
دہشت گردی کی Definitionکی ضمن میں ریاستی دہشت گردی کا لفظ امریکی نقادوں کی ایجاد ہے۔کیبا اور ایران، عراق، لیبیا، شمالی کوریا اور شام وہ ممالک ہیں جنہیں امریکی قیادت دہشت گردی کا الزام دیتی ہے۔میں نے امریکی ریاست اس لئے کہا ہے کہ باقی بہت سے اقوام اس امریکی الزام کو نا صرف مسترد کرتی ہیں بلکہ اس امریکی الزام کو سرے سے ہی تسلیم نہیں کرتی۔مثلاً حال میں جاری ایران کا ایٹمی پروگرام بظاہر اس نوعیت کا ہے جو بھارت کا ہے۔امریکی قیادت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہےکہ وہ دہرا معیار دے رہی ہے جبکہ امریکی قیادت اس بارے میں صرف Defensive ہے ۔اس ریاستی دہشت گردی کی اصلاح نے خود امریکی فوجی ایکشن کے خلاف ایک مضبوط رد عمل پیدا کیا ہے۔میں عراق اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کو ہرگز جاءز قرار نہیں دیتا مگر دوسرے کے گھر پر حملے نے ان گھروں کو بھی غیر محفوظ بنادیا ہےجو اس میں سے کسی آگ میں نہیں جلتے تھے۔
اب تک کی گفتگو میں ہمیں اس بات کا اندازہ تو ہوگیا کہ دہشت گردی ایک انجانا خوف ہے جو تشدّد کے ذریعے نہیں بڑھا کسی بھی وقت رونما ہو ہی سکتا ہے۔کیا یہ انجانا خوف صرف نامعلوم دہشت گرد کی ہی ہوگا یا وہ طاقتیں جو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزماہیں انجانے میں شہریوں کو بھی نشانہ بناتی رہے گی؟
کیا عراق میں یہ ہی نہیں ہورہا۔ان ساری باتوں ،تحقیق، تجربوں اور مشاہدوں کے ذریعے یہ بات عیاں نہیں ہوتی کہ ریاستیں اب تک دہشت گردی کی Defensive پر متفق کیوں نہیں ہوسکیں۔اور یہ بھی بات دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مشکوک بناتی ہے۔ابھی حالیہ STCمیں دہشت گردی اور تحریک آزادی کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے امریکی قیادت اس بارے میں ابھی خاموش ہے اس لئے کہ خود اس کے مضبوط اتحادی بھی اس کانفرنس میں تائیدی نسبت سے شریک تھے۔
کرشن صغیر لکھتے ہیں کہ تم عقلمند سیاستدانوں ، مبصروں نے یہ دنیا بہت جلادی ہے اور دنیا کو بہت دکح دے دئیے ہیں اب یہ دنیا ہم دل والوں کے سپرد کرو یقین کرو ہم مرہم رکھ دیں گے۔کہتے ہیں جب گوتھم ابھی بدھ نہیں تھا بچہ تھاایک استاد اسے تلوار چلانے کی مشق کرانے پر بار بار ناکام ہوا جارہا تھا۔ایک روز وہ جھنجنلا گیااسے گوتھم نے جو ابھی بدھ نہیں تھا استاد سے سوال کیا کہ تلوار چلانی ضروی ہے استاد نے جو نہ بدھ تھا اور نا مہاتما مگر عقلمند تھا جواب دیا کہ دشمن کو مارنے کے کام آتہ ہے گوتھم جو بدھ نہیں تھا مگر مہاتما تھا ،پوچھا کہ دشمن بناتے ہی کیوں ہیں کہ جنہیں مارنا پڑے؟مگر گوتھم کا یہ سوال آج بھی ایک جواب مانگ رہا ہے۔
دشمن بنائے جاتے ہیں کہ بن جاتے ہیں؟
کیاآزادی کے لئے جدوجہد ضروری ہے؟
کیا آزادی کے لئے کسی کو جدوجہد کی بھرپور تقرر کیجاسکتی ہے؟
کیا آج کسی ایک ریاست کو یہ کھلا حق حاصل ہے کہ وہ طاقت کہ بل پر ہر دوسری ریاست میں کوشش امن کا کردار ادا کرے؟
کیا ایران اور شمالی کوریا کو اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہے؟
کیا حالیہ دہشت گردی کا نشانہ صرف امریکہ ہے؟
اگر حالیہ دہشت گردی کا نشانہ صرف امریکہ ہے تو کیا اس کو دفاع کا حق حاصل نہیں؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتھادی بن جانے پر تاریخ ہمیں کس طرح شناخت کرے گی؟
No comments:
Post a Comment