راوی، رات اور میں
14 شعبان، 1400 عیسوی کی ایک قدرے خنک رات کو میں چاندنی کی ٹھنڈک میں خاموش کھڑا ہوں۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر آباد خیموں کے شہر کا آخری خیمہ ہے۔ لگتا ہے آج سارا لاہور راوی کے کنارے آجما ہے۔ گو بظاہر یہ تقریب کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتی ہے مگر اکثریہاں تمام فرقوں کے افراد ہوتے ہیں۔ امام عصؑر کے حضورعریضے ڈالنے کی رسم نجانے شروع تو کس نے کی بہت خوب کی، نفسیاتی اور اعتقادی دونوں لحاظ سے۔ میں خیموں کی طرف مڑکر دیکھتا ہوں۔ شب برآت کی خوشی میں مسرور چہروں کے پیچھے اصل خوفزدہ چہرے نظرآتے ہیں۔ یہ ظہور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہم ایک اور ہولناک جنگ عظیم کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں امن و امان کی فضا یکسر غائب ہے۔ ہر شخص اپنے تئیں غیر محفوظ ہے۔ خود میرے چاروں طرف ایک بےیقینی کی فضا ہے۔ ہم دشمن قوتوں سے اپنے حقوق کے بازیابی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابتک میرے وطن میں امن ہے مگر کیا بھول جاؤں کہ ساکن جمود طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ میں سن رہا ہوں کہ کیا میں بھول جاؤں دجال کبیر کا فتنہ موضع یہودیہ، خراسان میں اقوام متحدہ کے فوڈایڈ پروگرام سے شروع ہوچکا ہے۔ یاجوج ماجوج روس کے پہاڑوں کی ہرہر بلندی سے پھسلتے چلے آرہے ہیں۔ کفار ہند شکتی کے بہانے میرے خون کے پیاسے ہیں اور ہرے راما ہرے کرشن کی آڑ میں میری جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
لیکن میرے ہم غم جانتے نہیں شائید۔ یہ 14 شعبان کی شب برآت کے باوجود رات کے دشمن ہیں۔ یہ کارل مارکس کی صبح کے منتظر ہیں۔ یہ روسو کی صبح کے انتظار کرنے والے ہیں۔ یہ بے جانے بوجھے رات کے دشمن ہیں حالانکہ رات تو ان کے اور دشمن کے مابین رکاوٹ ہے۔ جب اجالا پھیلے گا تو یہ لوگ چن چن کر مارڈالے جائیں گے۔ کیونکہ یہ اجالا روشن سورج سے نہیں ہوگا اور بھلا سورج کے بغیر روشنی حقیقی ہوتی ہے؟ یہ اتنا نہیں جانتے کہ دن محض برے کاموں سے دن نہیں بنتا اور رات صرف سوجانے سے مختصر نہیں ہوجاتی۔ دن کی پہلی دلیل سورج ہے مگر وہ تو ابھی غیب میں ہے۔ یہ ایسے دن کے طالب ہیں جس میں سورج کا تصور نہیں۔ یہ رات کے دشمن ہیں مگر رات اور ظلمت کے فرق کو جانتے ہی نہیں۔ یہ جاننا نہیں چاہتے کہ ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ شامل ہوتا ہے۔ ان کے دشمنوں نے ان کے منہ سچ سے موڑ کر اپنے طرف کرلیے ہیں۔ سچ ان کی پشت پر ہے اور اس سے نکلنے والی شعاعیں دشمن کے ہاتھوں میں موجود شفاف شعبدوں سے منعکس ہوکر ان کی آنکھیں خیرہ کررہی ہیں۔ اور یہ اتنے نادان ہیں کہ ان عکسوں کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں حالانکہ سچ ان کے زیادہ قریب ہے۔
میں خاموشی سے اپنے اطراف کا جائزہ لیتا ہوں۔ میں اپنے اطراف کا جائزہ لیتا ہوں۔ میرے چاروں طرف عفریت جیسے مسائل شیطان کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ میں ان ابلیسی جنگلوں سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔ ان مسائل کو کوئی عام آدمی حل نہیں کرسکتا۔ میں آج جاہلیت کا دھندلا سا عکس دیکھ رہا ہوں۔ گویا میں جانتا ہوں کہ ان عریضوں میں کیا لکھا جاتا ہے۔ کیسی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اگر کوئی ان عریضوں کو پڑھ پائے تو جان جائے کہ اس نفسا نفسی کا دور آن پہنچا ہے جس سے کبھی خبردار کیا گیا تھا۔ مگر شائید ابھی کچھ عریضے ایسے ہوں جو محض خود کے لیے نہ ہوں۔ صرف کالے دھن والے ہی ان میں شامل نہ ہوں۔
میں بےچارگی کے عالم میں گھٹنوں کے بل ٹھنڈی ریت پرجھکتا ہوں۔ چاندنی مزید نکھر گئی ہے۔ میری آنکھیں بند ہوئی جارہی ہیں۔ راوی کا پانی جوش پر ہے۔ اس کی لہریں ریت پربکھررہی ہیں۔ میری شہادت کی انگلی شمال کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ میں بڑبڑا رہا ہوں، میرے مسائل کا حل۔۔۔۔ پریشانیوں سے نجات۔۔۔۔ عجل اللہ فرجک۔۔۔۔۔۔۔عجل اللہ فرجک۔۔۔۔۔عجل اللہ فرجک
ڈاکڑ عنبر تاجور
(یہ افسانہ ماہنامہ، "تجدید نو" کی اشاعت ، سال 1982 میں شائع ہوچکا ہے)
No comments:
Post a Comment