رحمت العالمین
میں نے اسی روز ٹی
وی پر خبر سنی اور میں سناٹے میں آگیا۔ کیا خبر تھی ۔ پہلے تو مجھے اپنے کانوں پر
یقین نہیں آیا مگر پھر علم ہوا کہ خبر بالکل صحیح تھی۔
کسی نواحی گاوں میں ایک نو عمر نوجوان نے خود اپنا ہاتھ کاٹ
لیا تھا، چارہ کاٹنے والے ٹوکے سے۔ بظاہر کسی
نواحی گاوں کے کسی بھی نوجوان کی کسی بھی خبر کے ساتھ بھلا کیا تعلق ہوسکتا تھا
اور ایسے کسی غیر اہم اور غیر دلچسپ موضوع پر کچھ سوچنا بھی کیا فائد ہ دے سکتا
تھا۔ جہاں عام لوگ روزانہ مکھی مچھروں کی
طرح مرجاتے ہوں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں انفرادی طور پر پائی جانے والی بیماریوں
سے یہاں عام لوگ ان بیماریوں سے اجتماعی طور پر مرجاتے ہوں۔ وہاں کسی ایسے نوجوان کی اس خبر میں کیا اہم
ہوسکتا ہے۔ مجھے اس نوجوان کا نام تو بالکل یاد نہیں رہا۔ شائید اس لیے کہ کسی
نواحی گاوں میں ایسے بہت سے غیر اہم نوجوان بستے ہیں جنہیں سانپ کاٹ لیتا ہے اور
وہ ماندرے سے جھاڑ پھونک کے دوران ہی مر جاتے ہیں۔ وہاں کسی غیر اہم نوجوان کا خود
سے ہاتھ کاٹ لینا کہاں قابل توجہ ہوسکتا ہے۔ یہاں تو لوگ خود اپنے اور اپنے بچوں
کے ہاتھ پاوں کاٹ کر انہیں بھیک مانگنے سڑکوں پر بٹھا جاتے ہیں۔
تاہم جب سے میں نے یہ خبر
سنی میرے ہاتھوں میں ایک عجیب سی اینٹھن شروع ہوگئی تھی۔ میرے ہاتھوں میں ایک ایسی بے چینی تھی جو اس سے
پہلے نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کئی بار اپنے ہاتھوں
کو ٹٹول کر دیکھا۔ وہ دونوں ہی بے جان سے تھے۔ خبر میں نے سرسری طور رسےسنی تھی
اور میں اسے ایسے ہی لینا چاہتا تھا جیسے تھر میں روازنہ مرنے والے بچوں کی خبر
سنتا ہوں۔ وہاں تھر میں یہ بچے روازنہ
مرتے ہیں۔ میں یہ خبر ناشتا کرتے، کھانا کھاتے، افسانہ لکھتے، ڈرامہ دیکھنے سے
پہلے ، سوتے سوتے ہر وقت سنتا ہوں اور لاپرواہی سے بھلا دیتا ہوں۔ یہ بچے تو اس
طرح مرتے ہیں جیسے یہ پیدا ہی فوراً مرنے
کے لیے ہوئے تھے۔ کسی کو ان کے مرنے کا کیا دکھ ہوتا ہوگا۔ کیا ان کے ماں باپ ہوتے
ہیں، بھائی بہن ہوتے ہیں۔ کیا کسی کو ان
کے دنیا میں آنے کا انتظار بھی ہوتا ہے۔ بھلا گرد سے بنے ان بچوں کو جی کر کرنا
بھی کیا ہے۔اسی طرح اس نوجوان کا اگر ہاتھ لگا بھی رہتا تو کیا فرق پڑجاتا۔ لیکن میرے اپنے ہاتھوں کی بےچینی نے مجھے خبر
میں دلچسپی پر خوب اکسایا۔ کیا جسم اس طرح بھی ایک دوسرے سے تاثر لیتے ہیں۔
میں کچھ دیر کے لیے گاوں میں چلا گیا۔سرسوں کے ساگ کی بھینی
بھینی خوشبو سے میرا مزاج رومانوی ہونے لگا۔ سردی کے موسم کی دھند میرے خیالوں کے
چاروں طرف پھیل گئی۔شائید یہ واقعہ سردی کے موسم میں ہوا تھا۔ صبح کے دھندلکے میں
ایک سائیہ آہستہ آہستہ نمایاں ہوا۔ یہ کرماں تھا، کرم حسین، کرم علی، محمد کرم،
کرم دین، کرموں کچھ بھی۔ بہرحال یہ کرم چند ہرگز نہیں تھا۔ اس کی مسیں ابھی بھیگ
رہی تھیں اور حلق کے کوئے کے بڑھنے کی وجہ سے آواز پھٹنا شروع ہورہی تھی۔ اس کی
ماں صبح صبح اسے تیار کروا کے اس امید پر ملا کے پاس بھیجتی تھی کہ چار لفظ سیکھ
کر اپنے باپ سے زیادہ پیسے کما سکے۔ ملا
جی کے پاس جانے کو کرمے کا بالکل دل نہیں
ہوتا تھا مگر باپ کے ڈر سے اسے جانا پڑتا تھا۔ راستے میں اسے کوئی بیلی نہیں ملتا۔
اس وقت سب ملا کے پاس ہی جاتے۔ صرف وہ ہی بچتے تھے جنہیں سارا گاوں برا کہتا۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس تو کرما جا ہی نہیں
سکتا تھا۔ پہلے اسے غلیل چلانے کا بہت شوق تھا۔ کبھی کبھی کوئی چڑیا اس کے نشانے
سے مار کھا ہی جاتی تھی۔ مگر اسے بھی ملا
جی نے چھڑا دیا تھا۔ ملا جی نے لڑکوں کو
بتا یا تھا کہ یہ جہان ہمارے ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں بنا ہے اور ہم سب کو اگلے
جہان میں اللہ کے حضور جانا ہے۔ اس لیے اس دنیا سے منہ موڑ لینا چاہیے اور کسی بھی
چیز سے دلچسپی نہیں رکھنی چاہیے۔ بس اللہ کو یاد رکھیں، نماز روزے کا دھیان دیں۔
مگر جب کرمے نے پوچھا کہ ملاجی اس طرح تو ہمیں گھر گھرہستی بھی نہیں کرنی چاہیے اس سے دنیا میں دل کھنچتا ہے۔ تو ملاجی نے بہت بڑی
مسکراہٹ کے ساتھ کرمے کی تائِید کی، تاہم ملاجی بہت ناراض ہوئے جب کرمے نے حیرت سے
پوچھا کہ ملا جی کا اپنا گھر ہے، دو بیویاں ہیں، درجن بھر بچے ہیں، کھیت ہیں، ہل
ہے ، بیل ہیں۔ تو ملاجی نے اسی شام کرمے کی زبان درازی کی شکایت اس کے باپ سے کی۔
کرمے کی زبان تو بند ہوگئی مگر اس کا ذہن پریشان ہوگیا۔ لیکن یہ شروع شروع کی بات تھی۔ بعد میں کرمے کا پتہ چلا کہ باقی لوگوں کی
طرح وہ بھی مذہب کا ایک سچا اور سیدھا پتلا ہے جسے اس دنیا صرف اس لیے زندہ رہنا
ہے تاکہ ایک روز وہ اللہ کے حضور پیش ہوسکے۔ اس کے لیے اسے زیادہ محنت نہیں کرنی
بس ملا جی کی بات ماننی ہے۔ اب صبح صبح خواہ چڑیاں چہچہا رہی ہوں، بھنورے مست ہوں،
تتلیاں گیت گاتی ہوں، موسم کیسی بھی
انگڑائی لے۔ اسے تو بس قران پڑھنا ہے۔ بڑے پیر کی حاضری دینی ہے۔ اور ہاں اس کی
نماز قضا نہیں ہونی چاہیے۔ ملا جی نے اسے بتایا تھا بلکہ روز تاکید کرتے تھے کہ ایک
وقت کی قضا نماز کی معافی ساری عمر نہیں ہوتی۔
اس روز نجانے کیا ہوا ۔ شائید رات کو کرما دیر سے سویا۔ یا رات کو آرام سے نہیں سویا۔ یا موسم نے
رات ہی رات میں سردی کی طرف بھرپور انگڑائی لی۔ اس کی آنکھ کھلی تو گرم گرم کھیس
میں لیٹے لیٹےاس نے بھی نوجوانی کی انگڑائی لی۔ اسے آج سونے میں بہت لطف آیا تھا۔
اس نے اسی نشے میں سر کھجایا۔ شلوار میں ہاتھ ڈال کر ران کھجائی۔ نیم باز آنکھوں
سے حیران ہوکر گھر کو دیکھا۔ ایسی روشن صبح تو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ایک لمحے
کے لیے اس نے سر واپس تکیے پر رکھا۔ کیا چیز عجیب تھی اس نے سوچا۔ اور پھر اس کے
دل میں ایک گھونسا سا لگا ،ا س نے بجلی کی تیزی سے کھیس دور پھینکا اور بھاگتے
ہوئے نلکے سے تازہ پانی سے منہ پر پانی ڈالا۔ کرما فجر کی نماز قضا کرگیا تھا۔ اس
کا ارادہ وضو کرنے کا تھا۔ مگر اس کا ہاتھ رک گیا۔ اس کے کانوں میں ملاجی کی آواز
گونجی کہ ایک وقت کی قضا نماز کی معافی ساری عمر نہیں ہوتی۔ پتہ نہیں مجھے وضو
کرنی چاہیے یا نہیں اس نے سوچا۔ اب تو میں معافی کے قابل نہیں رہا۔ وہ ناشتہ کرنا
اور فارغ ہونا بھی بھول چکا تھا۔ اس نے باہر جانے کے لیے کھیس بستر سے کھینچا مگر
اسےواپس پٹخ دیا۔ اسی کھیس نے اسے گناہگار بنایا تھا۔ وہ ٹھٹرتا ہوا ملاجی کے
مدرسے میں داخل ہوا۔سارے لڑکے واعظ سن رہے تھے۔ وہ خود کو کوستا ہوا طیفے کے برابر میں بیٹھ گیا۔ ملاجی واعظ میں
نماز کی ہی اہمیت بتا رہے تھے۔ آج تو انہوں نے کمال کردیا۔ کرما انہیں کم سن رہا
تھا اور خود کوکوس زیادہ رہا تھا۔ ملاجی نے بتایا کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ رسالت
کو جھٹلاتا ہے۔ ایسا شخص جھوٹا ہے اور جناب رسول
صلوۃ و سلام پر ایمان نہیں رکھتا۔
یہ اطلاع کرمے کے لیے جان لیوہ تھی۔ اس کے کان بند ہوچکے تھے اور دماغ ماوف۔
اس کے کان میں ملا جی کی گرجتی آواز آئی کہ کون کون ہے جو
رسول پر ایمان نہیں لایا۔
کرمے کی آنکھوں میں برسات کی ایک لڑی تھی جو رکتی نہیں تھی۔
ہرچند کہ اس روز دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ آسمان صاف نیلا تھا۔ حد یہ کہ ٹھنڈی ہوا بھی
بند تھی اور سارے کھلیان سیدھے کھڑے تھے۔ مگر کرمے کی دنوں آنکھوں سے برسات تھی کہ
نہیں رکتی تھی۔ کچھ دیر میں کرمے نے محسوس کیا کہ سارا مدرسہ خاموش ہوگیا ہے اور
ملا جی کی آواز بھی نہیں آرہی۔ اسے صرف اپنی ہچکیوں کی آواز آرہی تھی جو اب اونچی
ہوتی جارہی تھیں۔ اس نے طیفے کو سب سے پہلے دیکھا جو انتہائی حیرت سے کرمے کو دیکھ
رہا تھا۔ ایسی نظروں سے جیسے اس نے پہلی مرتبہ کرمے کو دیکھا ہو۔ پھر اس کی نظر
باقی جماعت کی طرف گئی جس میں سے اکثر بے یقینی سے اور کچھ صدمے اور غصے سے اسے
دیکھ رہے تھے۔ ملاجی کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور جاتا تھا۔ وہ تذبذب میں تھا۔ کرمے نے سب سے آخر میں خود کو دیکھا۔ اس کی
آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور اس کا الٹا ہاتھ ہوا میں اٹھا ہوا تھا۔
"کیا تیرا رسول پر ایمان نہیں ہے؟" خود ملا جی کی
آواز میں بے یقینی تھی۔
"میں نے فجر قضا کردی!!ملاجی" کرما
قریباً چیخ رہا تھا۔
"پھر تو نے ہاتھ کیوں اٹھایا کملے" ملاجی کے اوسان بحال ہوئے، "تو
کرما نہیں کملا ہے۔۔ تیرا یہ ہاتھ تجھ سے
بھی زیادہ کملا"
" مگر میرا وجود
خراب ہوگیا ہے ملاجی" کرمے کی تسلی نہیں ہورہی تھی، " میں خود کو کیا سزا دوں کہ معافی
ملے"
" اس سے زیادہ گناہ تو تیرے اس ہاتھ نے کیا ہے
کملے" ملاجی پھر بولا
یہ دوسری اطلاع کرمے کے لیے اور روح فرسا تھی۔ اس کے
ساتھیوں کی نظروں میں اب حقارت تھی۔ وہ مدرسے سے بھاگتا ہوا نکلا۔ اسے صرف یہ
آوازیں آرہی تھیں کہ کرمے نے کیا کیا؟ہر کوئی اسے ملامت کررہا تھا۔اس کے دماغ میں
اب کچھ بھی نہیں تھا۔
"میں نے یہ
کیا کیا؟ کیا کروں، کیا کروں؟؟؟"اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
بھاگتے بھاگتے سارے راستے میں ہر کوئی اسے کوس رہا تھا۔ وہ
سارے پرندے جو راستے میں اسے روز ملتے ، درخت، کھیت کھلیان، راستے کی گرد۔ دور سے
گذرتے ہوئے بیل اور ٹریکٹر سبھی اسے کوس
رہے تھے۔ وہ شام تک بیلے میں چھپا رہا اور روتا رہا۔ اسے کوئی یقین نہیں دلا سکتا تھا کہ اسے معافی مل جائے گی۔
اسے یہ واضع ہوچکا تھا کہ نماز قضا کرکے اس نے پاک رسول صلوۃ و سلام پر ایمان
کھودیا ہے اور اس کے ہاتھ نے یہ بات صاف عیاں بھی کردی ہے۔ اسے لوگوں کی آوازیں
سارا دن سنائی دیتی رہیں۔
"توں کی کیتا؟"
"توں ہتھ کیوں اٹھایا"
"ایہنوں وڈھ دے"
شام تک ساری آوازیں بند ہوچکی تھیں اور صرف ایک آواز باقی
تھی جو اس کے دماغ میں بس گئی تھی۔
"ایہنوں وڈھ دے"
شام کے اندھیرے میں کرما واپس گھر پلٹا۔ اس کے آنگن میں
تقریباً سارا گاوں اکٹھا تھا۔ دور سے ہی سب نے اسے شناخت کرلیا۔ اسے اندازہ ہوگیا
تھا کہ سارے آج کے واقعے پر اس کے باپ سے جواز پوچھتے رہے ہوں گے۔ اس کے سامنے آتے
ہی سب نے اسے لعن طعن کرنا شروع کردی۔ اس کے وہ سارے دوست جو ابھی تک اس کی تما م
واہیات باتوں کے ہمراز تھے اسے مارنے کے درپے تھے۔ وہ خاصی دیر خاموش کھڑا انہیں
سنتا رہا اس وقت تک جب تک ان کا غصہ تشدد میں بدلتا۔
" میں اس نوں وڈھ دتا ہے " اس نے اپنا کٹا شدہ
ہاتھ سب کے سامنے کردیا، " اب مجھے رسول اور اللہ سے معافی مل جائے گی"
اس کا لہجہ سپاٹ اور اونچا تھا۔ محسوس ہورہا تھا کہ آج وہ
بڑا ہوگیا ہے۔ سب سے پہلے ملا جی نے بڑھ کر اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کو بوسہ دیا،
"اللہ تے اس کا رسول اب تجھ سے راضی ہیں"
میں یہ خبر سنتے سنتے غنودگی میں چلا گیا۔ میرے خواب میں رحمت
العالمین صلوۃ و سلام کھڑے تھے ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ ان کے ہاتھ دعا
کے انداز میں بلند تھے اور وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تمہارے یہاں میرے رحمت
ہونے کا یہی مطلب ہے"
ڈاکٹر عنبر تاجور
افسانہ اچھا ھے مگر شروع میں ہاتھ کٹنے والی خبر نے افسانے کو شدید متاثر کر دیا۔ اس خبر کو شروع میں بیان کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ وہ ٹکڑا شاید اس لئے افسانے کاحصہ نہیں لگ رھا بلکہ تمھید لگ رھی ھے۔ درمیان میں جا کر افسانے نے اپنا صحیح ٹریک پکڑا۔
ReplyDelete