Research

Know the Truth of your Faith

Tuesday 20 June 2023

اقوام عالم ور گلوبل ولیج کا تصور



اقوام عالم ور گلوبل ولیج کا تصور

میں کہیں جارہا تھا کہ میں نے نہر کے کنارے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا ہے وہ شخص پانی میں ابھرتا تھا کھلی کھلی آنکھوں سے لوگوں کو تکتا تھا اور پھر ڈوب جاتا تھا۔لوگ شور کر رہے تھےہاتھ دو ہاتھ دو ہم تمہیں کھینچ لیں گے مگر وہ تھا کہ کھلی کھلی آنکھوں سے دیکھتا تھا اور ڈوب جاتا تھا ۔اسی دوران بحیڑ کو چیرتے ہوئے ملا نصیرالدین نمودار ہوئے '' آہ!میں اسے جانتا ہوں ''وہ بولے۔یہ فلاں جگہ کا مالدار شخص ہےیہ کہہ کہ وہ نہر کہ اندر جھکے اور کھینچ کر ڈوبتے ہوئےشخص سے گویا ہوئے۔''یہ لو پکڑو اور کھینچ لو''اس شخص نے فوراً ملا کا ہاتھ پکڑا اور کھےنچا تو کنارے پر آگیا۔لوگوں نے ملا کی تعریف کی۔میں نے ملا سے پوچھا ''حضرت یہ کیا بول رہا تھا''ملا بولے ''میں اس کو جانتا ہوں۔یہ بہت مالدار شخص ہے۔کبھی کسی کو کچھ نہیں دیتا۔لوگ اس سے ہاتھ مانگ رہے تھے۔میں نے اس کو ہاتھ دے دیا
مالدار اقوام بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔
مسلہ کشمیر میں یہی بہت اہمیت کی بات ہے۔ کون مالدار اقوام کو زیادہ مال دے سکتا ہے۔ مال یا ایسا فائدہ جو مال دے سکے، ایک ہی بات ہے، مال ہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کامیاب اور زیرک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ ان کا ملک مغربی دنیا کی ۷۰ فیصد سے زیادہ معیشت سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سمجھتے ہیں، وہی سب دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور درست سمجھتے ہیں۔ انہیں ثالثی کا خیال آیا ہے، سب کو آیا ہے۔ اس ثالثی میں بھارت انہیں ایک بہت بڑی منڈی بے بھاؤ دینے کو تیار ہے۔ پاکستان کیا دے سکتا ہے؟ بےحد غور کرنے کی بات ہے۔ انہیں پاکستان کیا دیتا نظر آیا ہے؟ پاکستان اپنی منڈی چین کو دے چکا ہے اور کیا دے سکتا ہے؟ کیا ڈھائی ارب کی آبادی کی منڈی کا ناراض کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسی شکست جو پاکستان کا پلہ بھارت پر بھاری کردے، ممکن ہوگی؟ کیا جنگ میں کشمیر لینے کا مطلب بھارت کی ۲۴ ڈویزن فوج کو شکست دینے کے مترادف نہیں ہوگا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ خام خیالی جتنی بھی کی جائے حقیقت نہیں بن سکتی۔
مجھے نظر آتا ہے کہ ثالثی میں مکمل کشمیر، کنٹرول لائن کے دونوں اطراف، بشمول لداخ ۲۰ سال کے لیے اقوام متحدہ کی حفاظت میں دے دیا جائے تاکہ "استصواب رائے" کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ اقوام متحدہ کی مشترکہ فوج مغربی ممالک پر مشتمل ہو۔ یہ تعیناتی چین کو آسانی سے مانیٹر کرسکے گی۔ یہی "آسانی" پاکستان، صدر ٹرمپ کو دے سکتا ہے۔
مالدار ''قوم'' قوم وہ لفظ ہے جسے شاید آج کسی Definition کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔جب بھی گروہ انسانی کہیں پر بھی یکجا ہوا ہے اس نے کسی بنیاد پر خود دوسرے موجود گروہوں سے خود کو الگ تصور کیا ہے۔مذہب بھی اس بات کا شاہد ہے۔آدم کے دو بیٹوں کا قصہ تو اب بچوں کو بھی ازبر ہے۔ظاہر ہے کہ جب افراد کا ایک گروہ کسی خاص بنیاد پر اکھٹا ہوجائے تو وہ دوسرے گروہوں سے خود کو شناخت کرنے کا بھی طلب گار ہوگا۔تاریخ مرقوم ہونے سے ہت پہلے سے جب حصہ کیا بچوں کو پڑحا جانا ہے تب بھی قوم کا تصور موجد رہتا تھا۔تاہم اس وقت شاید اس لفظ کو Exclusive کرنے کی اس قدر شدید ضرورت نہیں رہی ہو جس قدر آج ہوچکی ہے تاریخ میں ہمیں قوم کا تصور اپنے اصطلاحی معنوں میں سب سے پہلے یونان تہذیب میں ملتا ہے۔وہ لوگ ایک علاقہ میں ،ایک لباس میں ، ایک رنگ ،ایک تمدّن اور ایک زبان بولنے والے مختصر افراد تھے۔ اپنے علاقے کے علاوہ دیگر علاقے ان کی نظر میں قابل توجہ نہیں تھے۔باہر کے علاقے میں صرف علاقوں کے حصول کے لئے مہم کشی کی جاتی تھی۔پھر ضرورت کے تحت افراد زیادہ ہوتے گئے اور افراد کے لئے وسائل کی کمی ہوتی گئی لہذا ان لوگوں کی طرف نظر اٹھی جو ان وسائل کو استعمال کر رہے تھے جن کی ضرورت یونانی قوم کو تھی۔لہذا وسائل کے حصول کے لئے یونانی قوم ور غیر قوم ووجود پذیر ہوئیں۔یونانی قوم اس سے قبل بھی تھی لیکن امتیاز صرف''شہری'' اور ''غلام'' میں تھا غلام کو قوم کا حصہ خیال نہیں کیا جاتاتھا۔اسوقت شاید قوم اور شہری ہم معنی خیال کئے جاتے ہیں۔لفظ ''قوم'' Nationبہت بعد کی پیداوار ہپے۔قوم میں ''ضرورت وسائل'' کے لئے مفادات جنم لیتے رہے اور افراد میں اضافہ ہوتا رہا۔
میں اس گفتگو میں ابن فاران کی بیان کردہ اصطلاح ''عمیت''کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ان کے خیال میں قوم کی تشکیل میں ''عمیت'' ہی واحد عنصر ہے۔عمیت میں پوشیدہ وہ عنصر بھی شامل ہیں جو ایک قوم حسد یا رشک کی بنیاد پر دوسری قوم سے رکھتی ہے۔عمیت کے اس عامل سے مسلم حکمرانوں اور ملائیت نے مسلم حمیت کے نام سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔اور مشترکہ مفادات کی یہ کونسل، حکومت، ملائیت اور دولت آج بھی فاءدہ اٹھا رہی ہے۔تاریخ کے ادوار کا پیہم مسلم حکمرانوں کے عروج کو کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا ہے۔مگر مفادات کی آئینی طوق قوموں کی گردنوں سے کب اترسکے گاکوئی نہیں جانتا۔ اقوام کی شناخت کا مرحلہ ایشیاء کے بعد یورپ میں بھی دوبارہ کھڑا ہوگیا۔کوئی سلطنت کے زوال کے بعد عطاردے اپنے تمام تر علمی ذخیرے کے ساتھ قسطنطنیہ سے بھاگ کر وہاں جاکر براجمان ہوگئے۔علم میں ایک بڑی مصیبت ہے روشنی کی طرح وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔یہی کچھ یور پ میں ہوا۔عین 1415ء کی بات ہے ادبی علم کہ وہ علم کہ جو ایشیاء کو منور کرچکا تھا۔یورپ میں سرائیت کرگیا۔یورپ میں احےائے علوم اور احےائے سخن سے تحریکوں نے ایک نئی روح پھونک دی۔اقوام کی شناخت کا مرحلہ شروع ہوا قومی مفادات کی کونسل نے بھی ایک کام شروع کردیا۔یورپ میں اقتدارکی ہوس،دولت کی تقسیم، مذاہب کی تنظیم نو اور ادب نے معاشرے میں ایک Clair Reactor شروع کردیا۔وہ علوم جو ادبی علماء نے خود تک محدود کئے ہوئے تھے۔یورپی زبانوں میں مدون ہوئے اور عوام الناس تک پھیل گئے۔علاقوں کی جغرافیائی حیثیت اور انفرادی تقاضوں کے درمیان سرحدوں کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ سلطنتوں، قوموں، زبانوں اور مذاہب کی جغرافیائی، عقلی اور جذباتی تقسیم شروع ہوگئی۔یہ الزام دیا جاسکتا ہے کہ علوم کی آمد نے معاشرتی کھنچائو پیدا کردیا مگر یاد رکھئیے کہ علوم جہاں معاشرتی تقاضوں کو پورا کرتے ہیںوہاں کم علمی جذباتیت میں پیدا ہوتا ہے۔علم کو جب تک مقید رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے معاشرتی بہائو یکساں سست رفتار ہی کے ساتھ ایک سفر میں جاری رکھتا ہے۔
اقوام کی سیاسی تاریخ کے جدید دور دوسری عالمگیر جنگ کے بعد شروع ہوتے ہیں۔جہاں قوموں کا عروج وزوال ، تاریخی پس منظر کی تحقیق، نظریات اور طاقت و مفادات کے حصول کے ذرائع سبھی تبدیل ہوگئے۔ گو معاشیات انسانی تاریخ کے اولین قدم سے لیکر آج تک غیر اہم کبھی بھی نہیں رہی۔ تاہم دوسری عالمگیر جنگ کے بعد معاشیات نے وہ اہم حیثیت حاصل کرلی۔جس نے معک آتی بہائو کے دریا کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ چند دہاءِوں قبل اورک برائیس نے قوم کے لفظ کو نیا آہنگ دیا یا یوں کہیئے کہ جہاں دوسری عالمگیر جنگ نے نسل انسانی کو قتل کیا وہاں جغرافیائی ،مذہبی، لسانی بنیادوں پر قائم اقوام ان سرحدوں کو پائمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب بھی آئیں۔ان میں باہم اختلاف پیدا ہوا۔یہ بات تو اب صد فیصد ثابت ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ صرف اور صرف معاشیات کے دبائو پر کری گئی۔تاہم مذہب کو اب بھی اس بات پر یقین ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ معاشیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نسلی بنیاد پر لڑی گئی۔بڑی سادہ سی بات ہے اگر دوسری عالمگیر جنگ نسلی بنیاد پر لڑی گئی ہوتی تو UHO وجود میں نہ آتی۔تاہم یہ بات بہت حیرت کی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں دنیا میں وہ اہم اور نمایاں عمل کاری وجود پذیر ہوئی۔ایک UHO کا قیام اور دوسری نسلی بنیاد پر اسرائیل کا قیام۔کہاں UHO ، نسلی بنیاد پر لڑی جانیوالی جنگ کے بعد نسلی رد عمل کو روکنے کے لئے وجود میں آئی ہو اور کہاں خود UHO کے بڑوں کے جھندے تلے نسلی بنیاد پر اسرائیل کا قیام۔معدوم انسانی تاریخ چند ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے۔اس کے سرسری جائزہ سے اس بات کا علم ہوجاتا ہے۔کہ گروہ اپنی اعزازئیت کو کھودینا نہیں چاہتے۔قوموں کی تشکیل بے خودی میں پروان چڑھے تمدن سے ہوتی ہے۔اس میں شعوری کوشش کا معمولی حصہ ہوتا ہے جو مسلسل متغیر اور مستعدی رہتا ہے۔ادرک برائیس کی اصطلاحی تفسیر سے قطع نظر قوم صرف علاقہ، لسان، رنگ، نسل وغیرہ کی بنیاد پر نہیں بنتی،مشترکہ مفادات کی بھی قوم ہوتی ہے۔فرق صرف اتا ہے کہ عام روایتی اقوام جو علاقے، زبان، رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہیں۔عیاں میں اور نظر آتی ہیں۔مشترکہ مفادات کی کونسل بظاہر نظر نہیں آتی۔مشترکہ مفادات کی کونسل ہر شخص قوم کی خاص علاقہ، زبان یا رنگ سے نہیں بنتی۔اس کا اقتدار اعلیٰ تمام اقوام سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس قوم کے افراد میں ایک خاموش مگر قاتل ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔انسانی تاریخ کے اس منظر میں چند نہایت اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ جن کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔مگر آج کی تمدن دنیا کو کیا واقعی شعوری کوشش کے ذریعے ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کردینا چاہئیے؟کیا ایک قوم خود کو برتر اور بہتر گردانتے ہوئے دیگر تمام اقوام کو ایک چارٹر کے ذریعے ایک گلوبل ویلیج میں رہنے پر بزور مجبور کرنے میں حق بجانب ہوسکتی ہیں؟ ایسے گلوبل ویلیج کی شعوری کوششیں معاشی بنیاد پر ہیں یا نسلی بنیاد پر ؟ یہی وہ سوال ہیں جن کا جواب ابھی اقوام عالم سے آنا باقی ہے۔
اس زمانے نے بہت جید اور عظیم علماء پیدا کئے۔عقلی اور فکری رجحانات جو بے مہار تھے ان کو نظم وضبط میں کردیا گیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے فیصلہ کن اور مطلق الفان فیصلوں کی راہ میں واضح اور مدلل توجیہات مرتب ہوئیں۔زمانوں اور تجربات نے معابر، روسو، ادک جیسے علمائے سیاست نے ''اقتدار علمی''کا لفظ سیکھا ور سکھایا۔ اقتدار علمی کے لفط کی وعیان کے ساتھ ہی حکمرانوں نے طاقت، دولت اور ملائیت نے خدا کے نام اور اختیار سے پوری کی پوری اقوام کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔عیسائیت اور اسلام دونوں جغرافیائی حصوں میں تقسیم ہوئےاور ان سرحدوں میں موجود اقوام کے درمیان مفادات کے بچائو اور حصول کی کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ اس ضمن میں دنیا مفادات کا تحظ کرتے ہوئے عالمگیر جنگوں سے آلودہ ہوئی۔غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن، وہی سوچہ ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن۔۔۔۔۔۔
کیا شعوری کوشش سی صرف ایک قوم کے معاشی اقدار کو تحفظ دیا جائے اور تمام دیگر معاشرتی اقدار کو تباہ ہونے دیا جائے؟ کیا دیگر قوموں کے معاشرتی اقدار کو بھی تحفظ دینے کا حق حاصل ہونا چاہئیے؟

No comments:

Post a Comment