Research

Know the Truth of your Faith

Tuesday 20 June 2023

چاندنی کے بھوت


چاندنی کے بھوت

گرمیوں کی سہ پہر میں کچے صحن پر چھڑکاؤ ہوجاتا تھا اور کھری چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔ مٹی کی سوندھی خوشبو ہمارے بچپن کو اس لیے بے چین کردیتی تھی کہ اب دادی ماں سے کہانی سنیں گے۔ شام کے شروع ہوتے ہی صحن میں بنے ہوئے گرمیائی چولہے پر بوا سالن چڑھا دیتی تھیں۔ چولہے کی دھندلی آگ اندھیرے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جاتی اور ہماری بےچینی بڑھتی جاتی۔ ہم بار بار دادی ماں سے پوچھتے کہ کہانی کب سنائیں گیں؟ کبھی کبھی تو ماں جی ہمیں ڈنپٹ دیتیں کہ دادی کو زیادہ تنگ نہیں کرو۔
سچ پوچھو تو کہانی سننے تک رات کے کھانے میں بھی مزہ نہیں ہوتا تھا۔ سرشام ہی کھری چارپائیوں پر سفید چاندنیاں اور خوب موٹے تکیے لگا دیئے جاتے۔ رات ہونے تک چارپائی پرسفید چاردیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ رات کے کھانے کے بعد ہی جب بڑے موڑھوں پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے تو ہم اس وقت تک بڑوں کی گھرکیوں کے باوجود تکیوں سے ایک دوسرے کو مار مار کر ادھ موئے ہوچکے ہوتے۔ بوا بے چاری چادریں ازسرنو سیدھی کرتی۔ بہت زیادہ تنگ ہونے پر کبھی کبھی دادی کو وقت سے پہلے ہی کہانی سنانے کا مشورہ دیا جاتا۔
کہانی سے پہلے روشنیاں ضرور گل ہوجاتیں۔ کہانی سناتے ہوئے دادی کی ایک شرط ہوتی کہ ہنکارہ تو بھرو۔ یعنی کہانی کے دوران ہوں ہاں تو کرتے رہو۔ اب احساس ہوتا ہے کہ ہماری بے چینی سے دادی کو موٹیویشن ملتی تھی۔ دلیر شہزادے، رحمدل بادشاہ کی حسین اور نازک شہزادیوں کو خوفناک دیو اور ظالم جادوگروں سے آذاد کروانے کی تڑپ پیدا ہوتی یا اپنے سے زیادہ طاقتور عفریت سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔ دادی جب کہانی سناچکتیں چاروں طرف پھیلی چاندنی میں اپنا ہی گھر کسی دیو کا سیاہ قلعہ بن جاتا۔ ہم اپنی چارپائی کو ہی اڑن قالین بنا لیتے اور کچھ ہی دیر میں یہ قالین جھاڑو والی جادوگرنی کا پیچھا کررہا ہوتا۔ اندھیری راتوں میں آنگن میں کھڑے شیشم اور نیم کے بڑئے بڑئے درخت خوفناک دیو بن جاتے۔ کئی مرتبہ بکریوں کے گھنگرو پریوں کی پائیل کی آوازوں میں ڈھل جاتے اور راجہ اندر خود پریوں سمیت ہمارے آنگن میں آاترتے۔ کئی مرتبہ ظالم جادوگر شیشیم کے درختوں سے اتر کر ہماری چارپائی پع آدھمکتا تو خوف کے مارے گھگھی بندھ جاتی اور پیشاب کرنے بھی اماں کا ہاتھ تھام کر ہی جاتے اور اس دوران بھی ادھر ادھر چڑیلوں کے حملے سے ہوشیار رہتے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ پریاں، دیو، جادوگر، چڑیلیں کہانیوں میں بستے ہیں۔ یہ کہانیوں میں ہی رہتے ہیں اور کہانیوں سے نکل آئیں تو پریاں اور چڑیلیں دونوں ہی مرجاتے ہیں۔ کہانیاں تخیل سے جنم لیتی ہیں اور تصور کو بناتی ہیں۔ یہی تصور بعد میں حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ نیل آرم آسڑانگ نے چاند پر پہنچ کر پہلا جملہ یہی کہا تھا،
"ہیلو دادی ماں میں تمہارا چرغہ ٹھیک کرنے آیا ہوں"
اپنے بچوں کے تخیل کو ہرگز مت ماریے۔ انہیں کہانیاں سنائیے۔ ان کا بچپن حقیقی دنیا سے ماورا آباد ہونا چاہیے۔ یہی تخیل انہیں اپنا تصور بنانے میں مددگار ہوگا۔ ممکن ہے کوئی کارل سیگال پیدا ہو۔ ممکن ہے ظالم دیو کو سر کرنے کی دھن میں وہ سماج کی غربت دور کرنے میں دلیر شہزادے کا روپ بھرلے۔ ہوسکتا ہے کہ حسین شہزادی کی آس میں برادری کے دیو کو خاتمہ کردے۔ ممکن ہے کوئی ہینسل ظالم ریاست کی قید میں اپنے بھائی گریٹل کو آزاد کروا لے۔ ممکن ہے ممکن ہے۔
بس کہانیوں کو زندہ رکھیں۔

2 comments:

  1. Very well written and v interesting . I thought it a short story but in the end you convertsd it in motivation and inspiration beautifully . Congrates brother .

    ReplyDelete
  2. Very well written and v interesting . I thought it a short story but in the end you convertsd it in motivation and inspiration beautifully . Congrates brother .

    ReplyDelete